غزل

شاعر: محسن علوی جدہ  
سچائی قلم سے لکھنے پر الزام مجھے ہر بار لگا
اس بات پہ مجھ کو فخر رہا یہ سچ مجھ پر سرکار لگا

اس دل کا اگر لکھوں بھی تو کیا اور ذکر کروں تو کیسے کروں
یہ اپنا دل ہی ایسا ہے دنیا سے بہت بے زار لگا

دل زخمی ہے تو ہونے دے دلجوئی کی تو فکر نہ کر
ہر ایک کے دل میں گھر کرلے دیواروں پر اشعار لگا

دکھ پاکر جس جانب دیکھا ہر سمت کچھ ایسے چہرے تھے
ہر چہرہ کچھ اپنا سا لگا ہر شخص قرابت دار لگا

اب دل کے لئے ممکن ہی نہیں نفرت سے کسی جانب دیکھے
نفرت کی وہ کشتی ڈوب گئی الفت سے بھرا دل پار لگا

خو شیوں کے لئے جو دل جھانکا ہر ایک کی ایسی حالت تھی
ہر شخص کا دل اس دنیا کے کچھ زخموں سے دو چار لگا

ہم اپنی خودی کو کیا کرتے ہم جیسے تھے ویسے ہی رہے
بکنے کو ہمی تیار نہ تھے ورنہ تو بڑا بازار لگا

ہے شکر فقط اک خالق کے آگے ہی جھکے ورنہ تو یہاں
ہر شخص خدا بن بیٹھا ہے ہر سمت نیا دربار لگا

اس عالم کل جب سوچا ہر چیز میں اک گہرائی ملی
مالک پہ تیقن بڑھتا گیا ہر شے میں الگ اسرار لگا

الفت میں خدا کی اب دل کی آ کچھ ا یسی تعمیر کریں
تسکین دل وجاں روح سے ہو وہ روحانی اشعار لگا

کانٹوں کا تو محسن کام یہی ہر پھول کو زخمی کر دینا
دنیا کے چمن میں بچ کے چلو ہے کون نہ جسکو خار لگا