دعائیہ نظم

شاعر: محسن علوی جدہ سعودی عرب  
کیا سناؤں میں تمھیں جو کچھ دل ناداں میں ہے
آ نکھ میں روشن ہوا جو درد دل میں جاں میں ہے

حرف کی پلکوں پہ روشن ہیں بہت سارے چراغ
فکر مومن کے لئے صالح بہت مژگاں میں ہے

فکر ہے اسلام کی ایمان کی قر آن کی
یوں تو کہنے کو بہت نیرنگئی دورا ں میں ہے

قوم کی الفت کا غم سب سے الگ اور منفرد
اس میں جو اک بات ہے وہ کب غم ہجراں میں ہے

آج افرنگی سیاست کوئی سمجھے تو ذرا
اس میں جتنا موڑ ہے کب زلف کے پیچاں میں ہے


وقت کے بے رحم افرنگوں سے گبھرانا نہیں
کبر ٹوٹے گا کبھی جو وقت کے سلطاں میں ہے

دل کی خواہش ہے حفاظت سے کنارے لے کے جا ئے
عظمت اسلام کی کشتی پھنسی طوفاں میں ہے

کیسے عظمت ہو مقدر آج مسلم کے لئے
عزم او ر ہمت فقط اس درد کے درماں میں ہے

عظمت اسلام کی خواہش لئے زندہ ہوں میں
کوئی دیکھے کس طرح جو قلب کے زنداں میں ہے

کچھ بھی ہو امید کا روشن دیا رکھتا ہو ں میں
بس یہی اک چیز تو اس ہستی ارزاں میں ہے

اک چراغ جاں سے جب ہم خود جلائیں گے چراغ
نور پھیلے گا جو پنہاں رحمت یزداں میں ہے


بس اسی پیغام کو لے کر جہاں میں پھیل جاؤ
رب نے جو پیغام اک نازل کیا قر آں میں ہے

جانے کیوں وحدت کو یہ امت نبھاتی ہی نہیں
جانے کیوں کھوئی ہوئی یہ وقت کے بحراں میں ہے

متحد ہو جا ئیں گر مسلم تو یہ بھی جان لیں
ہم میں وہ قوت ہے پنہاں جو کسی طوفاں میں ہے

جانے کیا ہو گا جو یہ زنداں سے باہر آئے گا
در حقیقت آج کا یوسف ابھی زندا ں میں ہے

حرف کے مشکل محاذوں پر مجاہد بن کے آج
لفظ میں محسن سمو یا جو مرے امکاں میں ہے