مثرگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

تبسم محسن علوی جدہ  

زندگی دل کی دھڑکنوں اور سانسوں کے تواتر اور تسلسل کانام ہے تو موت دھڑکنوں کی خاموشی اور سانسوں کے تسلسل کے ٹوٹ جانے کا نام ہے مگر میری بے تحاشہ پھولتی ٹوٹتی سانسیں اورکئی گنا اضافی دل کی دھڑکنوں کی بے ترتیبی نہ موت کا پتہ دے رہی تھی نہ ہی زندگی کی خبر دے رہی تھی پانی کی اونچی اونچی زو ر دار لہروں سے مقابلہ میرے بس کی بات کہاں تھی مگر نبیل اور انعم کی محبت نے میرے وجود میں ممتا کی تو انا ئی بھر دی تھی جو میں پوری قوت کے ساتھ انعم کو اپنی طرف کھینچتی تو کبھی پورا زور لگا کرنبیل کے وجود کو اپنی طرف کھینچتی اور اس کے ساتھ اپنے سے کچھ دور تیرتے ہوئے اپنے شوہرکو مدد کے لئے آوازیں دیتی ۔ مگر طوفانی بارش کی خوفناک آواز یں میری مدد کو پکارتی ہوئی آوازکو میرے شوہر شکیل تک پہنچنے ہی نہیں دے رہی تھیں ۔ چاروں طرف پانی ہی پانی آسمان سے دیوانہ وار بر ستا پانی تو زمین سے نکلتا پانی جیسے آج قدرت نے زمین و آسمان میں موجود پانی کے تمام سوتوں کو کھو ل دیا ہو میرے پاؤں کو تو ٹکنے کے لئے زمین کا سہارا ہی نہیں مل پارہا تھا جیسے میں سمندر پر دوڑ رہی تھی یکدم میری چیخوں نے آسمان اور زمین کو ہلادیا کیونکہ میرے دونوں ممتا بھرے ہاتھ خالی ہو چکے تھے پانی کی بے رحم موجوں نے میرے ممتا بھرے ہاتھوں شکست دے کر میرے جگر گوشوں کو مجھ سے چھین لیا تھا ۔ ایک تڑپتی ماں کے اعصاب بھلا اتنا بڑا سانحہ کیسے برداشت کر پاتے میرے اندر کی تما م توانائی میرے بچوں کے ساتھ ہی مجھ سے جداہوگئی اور نہ ہی اب مجھے کچھ فاصلے پر مو جود شکیل کی پر چھائیں نظر آرہی تھی اب توبس میرے چاروں طرف موت کی تاریکی ہی تاریکی خاموشی ہی خاموشی رہ گئی میرے اعصاب ہر بوجھ سے خالی ہو گئے ۔۔ کتنے ہی گھنٹے دنیا و مافہیا سے بے خبر رہنے کے بعد انعم اور نبیل کے رونے بلکنے کی آوازوں نے سماعتوں پر بوجھ ڈالا تو بے اختیار خوشی کے احساس سے دیوانہ وار نبیل اور انعم کو پکارتے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ اپنے چاروں طرف نا جانے کتنے ڈھیر سے نبیل اور انعم کو روتے بلکتے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ لاتعدا د بچوں کے ساتھ کٹے پٹے زخموں سے چور درد و تکلیف سے چلاتے جوان و بوڑھے مرد عورتیں بھی موجودنظر آئے ۔ ہوش و حواس ٹھ کانے لگے تو احساس ہوا کہ میں کسی امدادی کیمیپ کے سائبان میں لیٹی ہوں یہاں تک کن مہر بانوں نے پہنچا یا اس پر سوچنے کے بجائے آنکھیں مسلسل ان ڈھیر سارے نبیل و انعم میں سے اپنے نبیل وانعم کو ڈھونڈ رہی تھیں مگر آنکھوں کی مایوسی کو دل نے تسلی دی کہ یہ تو صرف ایک کیمپ کا ایک کونا ہے ہمت کرکے اٹھو اور تلاش کرو ۔ یہ بے ہوشی بھی کتنی اچھی چیز ہے جب تک بے ہوش رہی جسم کے کسی حصے کی ددر و تکلیف کی خبر ہی نہ ہوئی اور ہوش میں آتے ہی سارا جسم و جان دردو تکلیف سے بو جھل۔ مگر جسم و جان کی تڑپ سے زیادہ ممتا بھرے دل کی بیقراری نے کراہتے ہوئے جسم کو لرزتی کانپتی ٹانگوں ایک سے دوسر ے دوسرے سے تیسرے کیمپ میں گھمانا شروع کردیا ممتابھری بے قراری اشکوں کا سیلاب بن بن کر بہنے لگی مگر ان لا تعداد بچوں میں میرے انعم اور نبیل کا چہرہ کہیں نظر نہ آیا ایک امدادی ڈاکٹرنی نے میرے رستے ہوئے زخموں دیکھ کر مجھے اپنے پاس کرسی پر بٹھا تے ہوئے کہا بی بی پہلے اپنے زخموں کی ڈر یسنگ کرالو پھر آرام سے اپنے پیاروں کو تلاش کرنا اللہ سے اچھی امید رکھو ۔ اس نے دودھ کا گلاس اور ایک بسکٹ کا پیکٹ مجھے تھما دیااور بڑی تندہی سے میرے زخموں کو صاف کرنے اور ان پر دوا اور بینڈیج لگانے لگی پتہ نہیں کتنے عرصے بعد کوئی کھانے پینے کی چیز میرے ہاتھ آئی تھی ۔ بے اختیار دودھ کا گلاس منہ سے لگالیا مگر انعم اور نبیل کی آواز نے مجھے چونکا دیا ماما بھو ک لگ رہی، بہت بھوک لگ رہی ۔۔۔میری نگاہیں چونک کر چاروں طرف نبیل اور انعم کو تلاش کرنے لگی ۔۔۔ مگر ۔۔نگاہیں پھر خالی لوٹ آئیں ۔۔۔میں نے ڈاکڑنی سے اپنا ہاتھ چھڑ اتے ہوے کہا خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو میرے بچے مجھے آوازیں دے رہے ہیں ۔۔۔ اس نے پیار سے میراہاتھ تھماتے ہوئے سمجھایا کہ تم آرام سے اپنی بینڈیج کرالو اور یہ دودھ پی لو جلد ہی تمھارے بچے بھی مل جائیں گے مگر مجھے اس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی میرے لبوں سے صرف میرے بچے بھو کے ہیں ۔۔۔ میرے بچے بھوکے ہیں ۔۔۔نکل رہاتھا۔ ڈاکڑنی میری ممتا بھری کیفیت کو سمجھ گئی تھی کہ جس ماں کے بچے بچے بھوک پیا س سے بلبلا رہے ہوں اس ماں کے پیٹ میں بھلا کیسے ایک نوالہ بھی جا سکتا ہے ۔ میں بسکٹ کا پیکٹ اور دودھ تھامے پھر نبیل اور انعم اور اپنے شکیل کو ڈھونڈنے میں لگ گئی اب میں نے کیمپ کے باہر بچوں کو ڈ ھو نڈ نا شروع کردیا باہر دور دور تک سیلاب کی تباہ کاریاں پھیلی ہوئیں تھیں حد نظر تک اجڑی اجڑی ویران بستیاں جہاں کبھی جیتی جاگتی زندگیوں کا حسن و دلکشی تھی جہاں کبھی ہنستی مسکراتی فضائیں شور مچاتی ہوائیں تھیں جہاں گھر اور گھروں میں سجی اپنوں کی خوشیاں تھیں مگر اب وہی گھروں کے نا م و نشان کھنڈرات کی تصویر بنے کھڑے تھے ان کھنڈرات سے ٹپکتی وحشت نے سارے ماحول کو قدرت کے قہر و غضب کی تصویر بنا دیا تھا اس ہیبتناک منظر کے سائے آسیب کی طرح ذہن و دل پر چھانے لگے کہ کچھ لوگوں کی آواز نے چونکا دیا جو زورو شور سے اعلان کر رہے تھے کہ غوطہ خوروں نے کچھ اور لوگوں کوپانی سے نکالا ہے وہ آکر اپنے پیاروں کی شناخت کر لیں میرے قدم برق رفتاری سے اسی جانب اٹھ گئے مگرابھی میں دو تین معصوم بچوں کوہی غور سے دیکھ پائی تھی کہ میراوجود لرز کر رہ گیا کہ یہ تو زندہ بچے نہیں یہ تو لاشیں تھیں ۔ لا تعداد بڑی چھوٹی لاشیں جن میں کچھ تو پھٹے کپڑوں میں کچھ چادروں میں لپٹی اور کچھ با لکل برہنہ لاشیں ۔۔۔ دکھ و کرب سے میرادل پھٹ کر لہو بن کر آنکھوں سے بہنے لگا میرے حلق سے نکلی دلخراش چیخ پر کئی امدادی کارکن میرے پاس دوڑے آئے وہ سمجھے کہ شاید میں اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھ کرصبر وبرداشت کی قوت کھو بیٹھی ہوں آتے ہی انھوں نے تسلی تشفی دینی شروع کردی میں الٹا ان پر برسنے لگی کہ تم لوگ لاشیں دکھا کر ہمیں بھی زندہ مار دینا چاھتے ہو ان میں ایک معتبر سی عورت نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ بیٹی ہم ان لا شوں کو اس لئے لوگوں کو پہچانے کے لئے کہتے ہیں تاکہ جن لوگوں کے اپنے مر چکے ہیں انھیں صبر آجائے اور وہ انتظار کی اذیت سے بچ سکیں ۔۔ ورنہ کسی دکھیارے کو اور دکھی کر کے ہمیں کیا ملے گا ۔۔تم بھی ہمت کرکے ان میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈلو ۔۔۔ ابھی شام تک اور لاشیں آئیں گی مجھے اپنی سانسیں گھٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی ۔۔ میں ان لا تعد اد مردہ جسموں میں مردہ بن کر لیٹ تو سکتی تھی مگر اپنے دل کے ٹکڑوں کو ان میں نہیں دیکھ سکتی تھی ۔۔۔میں بھاگتی ہوئی کیمپ میں واپس آگئی اور کیمپ میں پھر بھی زندگی کی ہلچل تھی جبکہ وہاں بھی سب اپنے پیاروں کو زندہ لوگوں میں ڈھونڈ رہے تھے مائیں اپنے جگر گوشوں کو تو معصوم و مظلوم بچے اپنی ممتا بھری چھاؤں کی تلاش میں سر گرداں کو ئی اپنی بیوی کی تلاش میں تو کوئی اپنی بہن بھائیوں کی کھوج میں ہر چہرہ غم و یاس کی تصویر بنا آنسو بہارہا تھا یہ سب چہرے میر ے پیاروں کے نہ سہی میرے اپنوں ہی کے تو تھے قیامت صغری کے منا ظر آنکھوں کو دھندلانے لگے لوگوں کی بے بسی نامرادی نے میرے وجود پر عجیب سی سنسناہٹ پیدا کردی تھی زندگی میں پہلی مرتبہ اس احساس نے جیسے مجھے جھنجو ڑنا شروع کردیا تھا کہ خود مر جانا کتنا آسان ہوتا ہے مگر اپنے پیاروں کو مرے ہوئے دیکھنا کتنا مشکل ایک انجانے سے خوف نے دل کی دھڑکنوں کو اتنا تیز کردیا تھا کہ لگتا تھا کہ میرا دھڑکتا ہوا دل کہیں منہ کے راستے باہر نہ آ جائے دہشت سے کانپتے وجود کے ساتھ میں نے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا تو پھر چاروں طرف وہی خوفناک موجیں پانی کامہیب شور اور ان غضب ڈھاتی موجوں کے درمیاں اپنے انعم اور نبیل کے ننھے منے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے تھامے اپنا تیرتا ہوا وجود ان کی امی امی کی پکار ان کی خوف و ہراس سے پھٹی آنکھیں ۔۔۔ میرے ہو نٹوں پر توبہ واستغفار کے کلمے ۔۔۔ میرے ہونٹوں کے ساتھ میرا دل بھی اللہ کی رحمت کا فر یادی بنا اسے پکارہا تھا ۔۔۔ اے میرے رب مجھے اس آزمائش سے نکال دے اے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے ۔۔اس مصیبت کی گھڑی کو ٹال دے ۔۔۔۔ میرے بچوں کو میرے شو ہر کو زندہ سلامت ملا دے ۔۔۔۔شکیل ۔۔۔ میرے نبیل ۔۔۔ میری انعم ۔۔۔۔ میرے پرور دگار عا لم میرے بچھڑوں سے مجھے ملا دے۔۔۔۔ میں ساری عمر تیرے آگے شکر کے سجدوں سے سجدہ ریز رہونگی ۔۔۔۔ میری بند آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا میرے کپکپاتے لرزتے ہونٹ اپنے رب کو پکارہے تھے کہ ۔۔۔کہ اچانک میرے ماتھے پر ننھے منے لبوں کے بوسے ثبت ہو گئے ۔۔۔ ما ما ہم آگئے ۔۔۔نبیل کی آواز نے میرے مردہ جسم میں جیسے زندگی کی روح پھو نک دی میں نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں میرے سامنے شکیل اورنبیل اور شکیل کی گود میں چڑھی ہوئی انعم تھی ۔۔۔ میرا سر مایہ زندگی ۔۔۔۔۔ شکیل نے اپنے مہربان ہاتھوں سے میرے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے پوچھا کیا کوئی برا خواب دیکھ لیا ؟ لمحہ بھر کو میں خود چونک اٹھی کہ خواب وہ تھاجو میں نے بند آ نکھوں سے دیکھا یا خواب یہ ہے جو میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔ شکیل نے زور سے میرے ہاتھوں کو دباتے ہوئے کہا یار بہت بھوک لگ رہی ۔۔میں سوچ نہیں سکتی آج جدہ کی بارش نے کیا کیا قیامتیں بر پا کر رکھیں ہیں چار گھنٹے میں بچوں کے اسکول تک پہنچ پایا اور پانچ گھنٹے میں گھر تک تم خود انداز لگا لو کہ کتنامشکل ترین سفر طے کرکے آ رہے ہیں بس یو ں سمجھو کہ تمھاری دعائیں ہمیں زندہ سلامت لے آئیں ۔ ۔۔ ورنہ کچھ جگہوں پر تو بارش نے سیلابی کیفیت اختیار کر لی تھی پانی کے شدید بہاؤ کا مقا بلہ بڑی سے بڑی گاڑیاں نہیں کر پارہی تھیں ۔ مجھے معلوم تھا کہ تم ہم لوگوں کے لئے کس قدر پر یشان ہو رہی ہو گی۔۔ مگر میں کیا کرتا ۔۔ میرے مو بائیل میں پانی آگیا تھا اسی لئے چار گھنٹے سے تم سے بھی رابطہ نہیں کر پا یا ۔۔ شاید اسی پر یشانی نے تمھیں کو ئی برا خواب دکھا ڈالا۔۔ اب آپ اپنے خوابوں کی دنیا ے باہر آجائیے بچوں کوبھی بھو ک لگی ہے ۔بھوک لگی کانعرہ لگانے سے بڑی مشکلوں سے میں اپنے کو اس خو فناک خواب کے حصار سے نکالا ۔۔بچوں کو نہلا دھلا کر کھانا کھلانے کے بعد میں وضو کرکے اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوگئی ندامت کے ا شک میرے آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل سے بھی بہنے لگے پاکستان میں ہونے والے تباہ کاریوں کو میں نے ایک معمولی قدرتی آفت سمجھ کر بھلا بھی دیا تھا لیکن آج جب ذراسی دیر کے لئے بچوں اور شوہر کو تند و تیز بارش کے پانی میں گھرے دیکھا تو وطن عزیز پاکستان میں آنے والے سیلاب کے وہ سب حقیقی منا ظرخواب بن ک�آآنکھوں کو اشکوں دل کو درد کا طوفان دینے لگے جو ہمارے ہی جیسے لوگوں کے لئے قیامت بن کر ٹوٹ پڑے تھے ہمارے جیسے دنیا میں عیش وعشرت میں مگن دنیاداری میں مصروف ترین لوگوں کیلئے کسی کی تکلیف ودر د کا سمجھنا اس وقت تک بڑاہی مشکل ہوتا ہے جب تک ہم خود اس درد و تکلیف سے نہ گزریں دنیامیں بر پاہونے والی قیامت کبریٰ کے تعاقب میں آنے والی یہ قیامت صغریٰ ہمیں یہی درس دینے اور خبردارو ہو شیار کرنے چلی آتیں ہیں کہ ہم وقت سے پہلے اپنا احتساب کر کے اپنی گھٹتی عمر کی زنبیل میں توبہ واستغفار کے شفاف آبدار موتیوں کو بھر لیں جس سے جنت کی ابدی نعمتوں کوخریداجاسکے۔۔۔۔ کیادکھ تھے کون جان سکے گا نگارِ شب
جو میرے اور تیرے دوپٹے بھگو گئے