کمپیوٹر " اولاد کے لیے سہولت، والدین کے لیے صبر آزما آزمائش"

بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری

   

کشمیر کا مسئلہ اور امریکی پالیسی

بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری

 

سلمیٰ اظہر..................... الریاض

بچے اﷲ کی طرف سے والدین کے لیے خوبصورت تحفہ ہیں۔ بیٹے ہوں یا بیٹیاں ، اﷲ کی رحمت اور نعمت ہیں۔ بچے قوم کا مستقبل اور والدین کا روشن سہارا ہوتے ہیں۔ماں باپ دونوں کی توجہ اور امیدوں کا مرکز۔ اگر والدین انکی تربیت کے معاملے میں ذرہ بھر بھی غفلت برتیں گے تو نقصان صرف ان کا ہی نہیں ہو گا بلکہ معاشرہ بھی اس نقصان کا خمیازہ بھگتے گا۔ اور اگر اﷲ کی طرف سے دی گئی اس امانت کی تربیت دینی تعلیمات کے مطابق کی جائے تو نہ صرف اس کے مثبت اثرات معاشرے پر ظاہر ہونگے بلکہ آنے والی نسلیں بھی کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو گی۔


آج ہمارا پورا معاشرہ ایک عجیب افراتفری کا شکار ہے۔دین سے دوری اور دنیاوی تعلیم کے حصول نے والدین اور معاشرے کے کرتا دھرتا ؤں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔اور پورا معاشرہ اس سمت جا رہا ہے جسکی منزل کا کچھ پتہ نہیں۔افراد کی وہ تربیت جسکی ہمارے مسلم معاشرے کو ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی۔


ہمارے بچے ہمارے مستقبل ہیں، انکے کاندھوں پر کل کے پاکستان کی دمہ داریاں ہیں۔ آج کا پاکستان ہماری اور آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔کل کے بہتر پاکستان کے لیے ہم لوگ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ بڑے ہو کر صحیح سوچ کے ساتھ صحیح سمت کا تعین کر سکیں۔
 

 

آج کے یہ بچے ہمارے ہاتھوں میں اﷲ کی امانت ہیں۔کیا ہم یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لیں کہ سب اچھا ہے ، یا اپنے حصے کا کام پورے خلوص نیت کے ساتھ اور محنت کے ساتھ کریں اور صلے کی امید صرف اﷲ سے رکھیں کہ وہی بہترین صلہ دینے والا ہے۔

 

دنیاوی تعلیم کے پیچھے بھاگنا بری بات نہیں ہے ۔ برا تو یہ ہو رہا ہے کہ ہم دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیے اپنی پہچان بھولتے چلے جا رہے ہیں۔ہم کون ہیں؟ ہمارا مقصد حیات دنیا کا حصول ، اسکی آسائشیں یا پھر کچھ اور؟ کیا ہمیں ہمیشہ کے لیے اس چار روزہ دنیا میں رہنا ہے ، یا ہماری مستقل منزل کچھ اور ہے؟


بحیثیت مسلم یہ ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔اور ہر ایک ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس کے بعد کی زندگی ، کیا کبھی ہم نے اس کے بارے میں سوچا ہے۔ ، وہ زندگی جو لازوال ہو گی ، جہاں موت نہیں آئے گی۔اس زندگی کی کامیابی کے لیے عمل کی بنیاد تو ہمیں اس دنیا کی زندگی سے شروع کرنا ہے۔اگر ہم میں سے ہر ایک فرد اس بات کا مصمم ارادہ کر لے کہ اسے اپنے گھر سے اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرنی ہے کہ بچہ جھوٹ نہ بولے، بڑے کاموں سے دور رہے۔بڑوں کی عزت کرے۔با ادب رہے ، شور شرابے سے اجتناب کرے۔قرآن پڑھے اور نماز کی پابندی کرے، اس کے لیے گھر کے تمام افراد اور والدین کو بھی ان چیزوں کا پابند ہونا پڑے گا۔جبھی اس کے مثبت اثرات پورے معاشرے پر ظاہر ہونگے۔ اور بچوں کی ایسی تربیت ہو گی کہ انہیں دیکھ کر خوشی ہو گی۔یہ بچے سادہ کاغذ کی مانند ہیں اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس پر کیا لکھتے ہیں۔جس طرح اور جس انداز سے اس کی تربیت کریں گے۔ویسے ہی وہ بنیں گے۔اگر بچپن ہی سے انہیں اچھی باتیں بتائی جائیں گی اور بری باتوں پر ٹوکا جائے گا۔تو وہ جان جائیں گے کہ کیا صحیح کام ہے اور کیا غلط۔اس ضمن میں والدین ، اساتذہ اور خاندان کے تمام افراد پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔والدین اپنے بچوں کو بہترین سے بہترین اسکولوں میں داخلہ کروا کر اپنے فرائض سے چشم پوشی نہ کریں۔اور یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا۔اور تربیت کا حق ادا ہو گیا۔اسی طرح اساتذہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تربیت سے بھی آراستہ کریں۔کلاس میں کس طرح ادب سے بیٹھیں، توجہ سے ٹیچر کی بات سنیں، لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔اور اچھے اخلاق سے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ پیش آئیں۔گھر میس والدین اور بہن بھائیوں کا خیال رکھیں۔انکے ساتھ محبت اور ادب سے پیش آئیں اور ہر معاملے میں اس نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں جسکی تعلیم ہمیں ہمارا وطن دیتا ہے۔


ہمارا دین اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کرتا ہے۔ہمارے دن اور رات کیسے ہونے چاہیں؟ ہمارے کام اور دوسروں کے ساتھ معاملات کیسے ہونے چاہیے؟ غرض ہر معاملے میں ہمارا دین ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ہمارے گھروں میں اگر دن کا آغاز فجر کی نماز سے ہو ۔ والدین خود بھی نماز کے لیے اٹھیں۔اور بچوں کو بھی اٹھائیں۔یہ نہ سوچیں کہ رات دیر تک پڑھائی کی ہے۔ابھی نیند پوری نہیں ہوئی۔ تھوڑا اور آرام کرنے دو۔اگر یہ سوچ والدین کے ذہنو ں میں آ گئی۔پر انہوں نے تربیت کا حق ادا نہیں کیا تو اس کے لیے وہ اﷲ کے سامنے جوابدہ ہیں۔اس لیے اپنے بچوں کو شروع سے رات میں جلدی سونے اور فجر کی اذان کے ساتھ اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ جو بچے صبح جلدی اٹھتے ہیں اور فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ان کا حافظہ مضبوط ہوتا ہے۔اور وہ چاقوچوبند رہتے ہیں۔اپنے بچوں کو عادت ڈالیں کہ وہ اپنے ہر کام کا آغاز بسم اﷲ سے کریں ، دائیں ہاتھ سے کھائیں اور پےئیں۔ہر کام کے بعد اﷲ کا شکر ادا کریں۔بہن بھائیوں کا اور والدین کا خیال رکھیں۔ان کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ آپ ان کے لیے محنت کر رہے ہیں۔اور ان کے ہر اچھا کام کرنے سے آپ کو بہت خوشی ہوتی ہے۔بچوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دیجئے۔کہ وہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔اگر وہ کوئی بھی اچھا عمل کریں گے۔تو اس کاثواب والدین کو بھی ملے گا۔بچوں کو روزانہ قرآن پڑھنے کا پابند بنائیں۔ چاہے وہ ایک صفحہ یا چند آیات ہی پڑھیں لیکن اچھی طرح سمجھ کر پڑھیں۔انشاء اﷲ کچھ روز کی پابندی کے بعد یہ ان کی مستقل عادت بن جائے گی۔اس سلسلے میں بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ان کے سامنے جنت کی نعمتوں کا ذکر کریں۔اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیں کہ ہر اچھے کام سے ، دوسروں کی مدد کرنے سے ، سچ بولنے سے ، دوسروں سے مسکرا کر ملنے سے ، سلام میں پہل کرنے سے،چھوٹے بڑوں کا خیال کرنے سے ، امی ابو کی بات ماننے سے اور بڑوں کی عزت کرنے سے اﷲ خوش ہوتا ہے۔اور جنت میں داخلے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔اپنے بچوں کے کچے ذہنوں کو دور حاضر کے فتنوں سے بچائیں۔ ٹی وی ، موبائل اور لیپ ٹاپ ان کے لیے اتنا ضروری نہیں ہے کہ وہ گریڈ4 اور 5 کے امتحان میں کامیابی پر ان چیزوں کے مستحق قرار پائیں۔ان چیزوں کے لیے سمجھداری کی عمر درکار ہے۔جب بچوں میں اچھے اور بڑے کی تمیز آ چکی ہو۔تب ہی وہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔وگر نہ وہ ان چیزوں سے اپنا قیمتی وقت اور پیسہ دونوں برباد کریں گے یا انٹرنیٹ پر ہر ایسی ویب سائٹ وزٹ کریں گے جو انکی عمر کے مطابق ہی نہیں۔لہذا اپنے بچوں کی ہر سرگرمی پر نظر رکھیں۔ان کی پوری رہنمائی کریں ۔ اچھائی اور برائی کا فرق ان پر واضح کریں۔ان کے دلوں میں بات بٹھا دیں کہ اﷲ اپنے اچھے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔اور انہیں اپنی ہر نعمت عطا کرتا ہے۔دنیا میں بھی انہیں خوشحال رکھتا ہے اور آخرت میں بھی جنت کی شکل میں کامیابی عطا کرتا ہے۔اﷲ تعالی ہمیں اپنے بچوں کی صحیح اور دینی تربیت کرنے کی توفیق دے اور ان کو ہمارے پاکستان کا قابل فخر سرمایا بنائے۔ اور ہمارے لیے صدقے جاریہ،آمین۔