کمپیوٹر " اولاد کے لیے سہولت، والدین کے لیے صبر آزما آزمائش"

بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری

   

کشمیر کا مسئلہ اور امریکی پالیسی

کمپیوٹر " اولاد کے لیے سہولت، والدین کے لیے صبر آزما آزمائش"

 

شاہین جاوید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الریاض

"کمپیوٹر"، دور جدید کی خوبصورت اور مفید ترین تجربات اور سہولیات میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسی فائدہ مند دریافت ہے جس کی بدولت گھنٹوں کے کام منٹوں میں بغیر کسی مشکلات کے حل کئے جاسکتے ہیں۔ اس دریافت کی ایک شاندار اور قابل تعریف خصوصیت یہ ہے میلوں کی مسافت جو گھنٹوں پر مشتمل ہوتی تھی،اب کمپوٹر کی بدولت چند لمحوں کی نذرہو چکی ہے اور یوں ساتھ سمندر پار بیٹھے لوگ جب دل چاہے ،اپنے عزیز و اقارب سے نہ صرف بات کر سکتے ہے ۔ بلکہ ان کو لائیو دیکھ بھی سکتے ہیں۔اور فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔غرض کمپیوٹر کے فوائد کی فہرست سے تو سب آشنا ہی ہیں۔ پرکیا یہ ضروری ہے کہ ان فوائد کا اثر ہمیشہ مثبت انداز میں ہی رونما ہوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ان تمام والدین کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے خواہاں ہیں۔ والدین کا اولاد پر اعتماد ، اولاد کا بنیادی حق ہے اور اس اعتبار کو قائم و دائم رکھنا اور اعتماد کا صحیح استعمال کرنا اولاد کا اولین فرض۔پر کیا اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں والدین اور اولاد ، اس حق اور فرض کی صحیح معنوں میں اہمیت کو جان پائیں ہیں ؟ اس کا اندازہ لگانااتنا آسان نہیں۔ اور شاید لگایا بھی نہیں جا سکتا۔والدین اپنے بچوں کے بہترین اور روشن مستقبل کے لیے مہنگی سے مہنگی اور اعلی معیاری تعلیم کے سرگرداں نظر آتے ہیں اور انہیں ہر وہ سہولت فراہم کرتے ہیں جو معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے معاون ثابت ہو۔  اوراسی مقصد کے لیے بچوں کو ’’کمپوٹر اور انٹرنیٹ ‘‘ جیسی سہولیات سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔پر بچوں کی یہ سہولت والدین کے لیے مزید ذمہ داری اور توجہ کا سبب بنتی ہے۔ کہ آیا بچے اس سہولت کو مثبت طور پر استعمال کر رہے ہیں یا پھر؟۔۔۔۔۔ والدین کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے بچوں کی زندگی کو صحیح سمت میں لے جائیں۔۔ بچوں کو کمپوٹر دینا آج کے دور کی اولین ضرورت ہے کیونکہ

 

انہیں دنیا کے مطابق چلنا ہے ۔ والدین کی سرپرستی اور نگرانی کبھی بھی کم نہیں ہوتی۔ ان کی اپنے بچے کی ہر حرکت پر نظر ہوتی ہے۔پر چونکہ بہت سے والدین کمپوٹر کے استعمال سے ناواقف ہوتے ہیں۔اس لیے وہ اپنے بچوں کی کمپوٹر کے بدولت ہونے والی حرکات کو مدنظر نہیں رکھ سکتے۔بچے کیا کر رہے ہیں؟ پڑھ رہے ہیں یا پھر غیر مناسب اور نصاب سے ہٹ کر مواد میں مشغول ہیں۔ ان باتوں کا اندازہ لگانا نہ صرف ان ماں باپ کے لیے مشکل ترین عمل ہے جو کمپوٹر کے استعمال سے نا آشنا ہیں ، بلکہ ان والدین کے لیے بھی جو اچھی خاصی کمپوٹر اور انٹرنیٹ کی معلومات رکھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ بچوں کی سوچ میں ترقی ہوئی ہے اور اکثر اوقات بچے ایسی ایسی ترکیبات کا سراغ لگا لیتے ہیں جو شاید سالوں کی تعلیمی مسافت طے کرنے کے بعد سوچ و عقل کے زمرے میں آئے۔ اور اس طرح بچے اپنے بہت سے آزمائے جانے والے نئے تجربات کو بخوبی والدین کی آنکھ سے بچا نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔بچوں کی سراغی فطرت میں اضافے کے لیے ان کے حلقہ دوست احباب بھی ان کے لیے کافی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے معماملوں میں دوست بھی اپنی دوستی خوب نبھاتے ہیں۔ اور دوستی کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں۔غرض کہ گھر کا ماحول آج کے بچے کو خود میں سموئے نہیں رکھ سکتا۔ باہر کی دنیا اس کی اڑان کو ہوا کے سنگ چلنے پر بدستور رواں دواں رہتی ہے۔ ایسی صورت حال میں والدین دوہری کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف بچے کے لیے بہترین مستقبل کی خاطر دن رات تگ و دو کرناان کی زندگی کا حاصل مقصود ہوتا ہے جس میں وہ اپنی زندگی تقریباً ایک تہائی خرچ کر دیتے ہیں۔دوسری طرف بچوں کی صحیح اور بہترین تربیت کی فکر ان کی سوچ کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں۔روزی روٹی کی خاطر باپ کا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا ہے پر ماں کی نظر دن رات بچوں کے گرد گردش کرتی ہے۔اس لیے ’’ کمپیوٹر ‘‘ کے باعث بچوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا غم بھی ماں کو زیادہ فکرمند کئے رکھتا ہے اور یوں اکثر ماؤں کے نزدیک یہ نئی ایجاد ’’ موا کمپیوٹر ‘‘ بن کے رہ جاتا ہے۔


والدین کی ان فکر و اندیشہ کو ختم کرنا یوں تو ناممکن ہے پر اس کا سدباب کرنے کے کچھ نہ کچھ تدابیر ضرور موجود ہیں جن پر عمل کر کے والدین اپنی فکر کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔جیسے کہ۔۔۔


۱۔کمپیوٹر بچوں کے کمرے میں نہیں بلکہ ہمیشہ مشترکہ کمرے میں رکھا جائے۔ جیسے کہ ٹی وی روم ۔

 
۲۔کمپیوٹر کے استعمال کا ایک وقت متعین کیا جائے ، اور اسی طے کردہ وقت کے مطابق بچے اپنے تمام کام ترتیب دیں۔


۳۔ وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ کوئی بھی چیز فائدہ مند نہیں ہوتی۔ لہذا لیب ٹاپ کی فراہمی اس وقت تک قابل قبول نہیں ہونی چاہیے جب تک وہ اس کا مستحق نہ ہو سوچ کے اعتبار سے۔


۴۔ بچے کی تربیت میں ہمیشہ اچھے اور بڑے کا واضح فرق بیان کریں۔تا کہ ان میں صحیح اور غلط بات کو سمجھنے کا شعور پیدا ہوں۔ اور وہ ہر بڑائی سے اجتناب کریں ، چاہیں والدین موجود ہوں یا پھر غیر موجود۔


۵۔ والدین اور بچوں کے مابین دوستانہ ماحول کا ہونا بھی والدین کی سوچ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ والدین کی اگر بچوں کے ساتھ دوستی قائم ہو گی تو بچوں کو باہر کے دوستوں کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔اور وہ بلا کسی خوف و خطر اپنی ہر بات ان کے ساتھ شےئر کریں گے۔والدین اور بچوں کے درمیان بے تکلفی ،اعتماد اور بھروسے کو مظبوط کر دیتی ہے ۔ اس طرح بچے زیادہ محفوظ رہتے ہیں چونکہ والدین غلط بات کو بھی بچوں کی سوچ میں صحیح طریقے سے داخل کر کے ان کو مثبت راستے پر ڈال سکتے ہیں جو کہ زمانے کی کہی ہوئی بات میں نہیں۔۔۔۔