کمپیوٹر " اولاد کے لیے سہولت، والدین کے لیے صبر آزما آزمائش"

بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری

   

کشمیر کا مسئلہ اور امریکی پالیسی

کشمیر کا مسئلہ اور امریکی پالیسی

 

مدثر رفیق چوھدری................ الریاض

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اور پاک افغان امور کے لئے امریکی صدر باراک اوبامہ کے خصوصی ایلیچی رچرڈہال بروک اب اس جہان فانی میں نہیں رہے ۔انہوں نے خطے میں امن وسلامتی کے حوالے سے کوئی کارنامہ انجام دیئے بغیر ہی عدم کی راہ لی ۔ان کے انتقال سے امریکہ بوجوہ افسردہ ہے ۔کشمیر کے قضیئے کو حل کرنے کا انہیں جو ایجنڈا سونپا گیا تھااس پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی البتہ یہ بات طے ہے کہ کشمیر کے بارئے میں امریکی پالیسی خاصی گو مگو کی شکار ہے ۔چنانچہ مسئلہ کشمیر کے بارئے میں باراک حسین اوبامہ اسی پالیسی پر گامزن ہیں جو اس مسئلہ کے بارئے میں ان کے پیشتروں کی پالیسی تھی۔حالانکہ اپنے صدارتی الیکشن میں اوبامہ نے اعلان کیا تھا کہ جب وہ صدر امریکہ منتخب ہوں گے تو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقدامات کریں گے ایک طرف اوبامہ نے بھارت کے دورہ کے دوران میڈیا کے سامنے اور پارلیمنٹ میں کہاکہ مسئلہ کشمیر ایک درینہ مسئلہ ہے گویا بحثیت صدر اور یو این او پاور ممبر کی حثیت سے کشمیر کے سلگتے ہوئے مسئلہ کی حساسیت کو تسلیم کیا۔


دوسری طرف اپنے پیش روں کی یہ رٹ دہراتے رہے کہ مسئلہ کشمیر کے دو فریقوں بھارت و پاکستان کی رضامندی کے بغیر امریکہ نہ اس مسئلہ میں مداخلت کر سکتا ہے اور نہ ہی ثالثی۔یہ غیر اصولی و غیر اخلاقی منطق دیوانے کے بھڑ کے سوا کچھ نہیں لگتی۔کیونکہ جب امریکہ نے عراق پر چڑھائی کی تھی تو کسی نے بھی چڑھائی کرنے کی اسے دعوت نہیں دی تھی۔صدام حسین سے پہلے حماقتیں کرائی گئی۔ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنی عسکری قوت کو ممکنہ حد تک مضبوط بنایاہوا تھا امریکہ کو خدشہ تھا کہ کہیں عراق اسرائیل پر حملہ کر کے اسے صفحہ ہستی سے مٹا نہ ڈالے اور اس نے کویت کا بہانہ بنا 

 

کرعراق کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔یہی وطیرہ امریکہ نے افغانستان میں اپنایا ،وقت کے فوجی صدرجنرل ضیا الحق جنہوں نے روس کے خلاف مجاہدین کو جہاد چھیرنے پر تیار کیا اور انہوں نے طیرا ابابیل بن کر روسی فوجیوں پر ایسی یلغار کی کہ روس کو بعد از خرابی بسیارا افغانستان سے بوریا بسترہ لپٹتاپڑا۔جب طالبان نے خود اسلامی حکومت قائم کی تو امریکہ نے محسوس کیا کہ طالبان اب اسلامی قوت بنا کر اٹھیں گئے اور ایران بھی ان کی پشت پناہی کرئے گا اسی طرح افغانستان،پاکستان ،ایران و عراق ایک مضبوط مسلم بلاک بن جائے گا تو کس کے کہنے پر دعوت دینے کے بغیر طالبان پر فوجی یلغار شروع کر دی۔اس وقت علیحدگی پسند قیادت ہی نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ ،بھارت کے وزیر اعظم اور حقیقت پسند سیاسی لیڈر بھی کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل طلب مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ براعظم ایشیا کے امن کے لئے خطرہ بنا ہو ا ہے۔

 

آج کی صورت حال میں مسئلہ کشمیر کی احساسیت اور بھی دو چند ہوگئی ہے ۔یہ مسئلہ اصول وقاعدہ کلیہ ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیاں کسی مسئلہ پر نزاعی صورت پیدا ہوتی ہے تو پھر کوئی تیسری قوت مداخلت کر کے مسئلہ کا حل ڈھونڈتی ہے۔گزشتہ ساٹھ سال سے بھارت اور پاکستان دست بہ گریباں ہیں ۔متعدد بار مسئلہ کے حل کے لیے سفارتی سطح پر کاوشیں کی گہیں دونوں طرف کی حکومتوں نے تاشقند،شملہ،دہلی وغیرہ میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں کو ششیں کیں لیکن بھارت کے غیر خلصانہ روئیے سے بات نہ بنی۔اب مسئلہ کشمیر کی حساسیت چین کی سیاسی اور دفاعی سرگرمیاں کشمیر کی دھماکہ خیز صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ امریکہ اپنے ملکی مفادات کو الگ رکھ کر مسئلہ کشمیر میں پہل کر کے ثالثی کا کردار ادا کرے تاکہ کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کے عوام بھی راحت کی سانس لے سکیں جو اربوں روپے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں عسکری قوت پر صرف ہوتا ہے وہ تعمیر و ترقی اور غریب عوام کو بہتر اور باوقار زندگی گزارنے پر صرف ہو اور پورے ایشیا میں امن و شانتی کا ماحول قائم ہو۔مسئلہ کشمیر کا ایک فریق پاکستان تو بار بار امریکہ سے کہہ رہا ہے اس مسئلہ کے حل کے ثالثی کا کردار ادا کرئے ۔بحثیت ویٹو اور امریکہ از خود بھی ثالثی کا کردار اد اکر سکتا ہے۔
اس حثیت سے امریکہ کی یہ اخلاقی اور منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرئے۔امریکہ ایک ورلڈپاور ہے لیکن اس کو جان لینا چاہیے کہ روس اس تکبر و غرور کا خمیازہ بھگت چکا ہے ۔اگر امریکہ نے یہ متکبرانہ ،بالا دستی،چودہراہٹ،اور کمزور ملکوں کے استحصال کی روش کو ترک نہ کیا تو دنیا دیکھے گی کہ امریکہ خود ہی گہری کھائی میں اوندھے منہ گر جائے گا ۔کیونکہ مظلوموں ،محکوموں کے خون میں حلق ڈوبا ہو ا ہے۔اور مظلومو ں کی اہ و بدعاکبھی راہیگاں نہیں جاتی۔