مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اور
پاک افغان امور کے لئے امریکی صدر باراک اوبامہ کے خصوصی
ایلیچی رچرڈہال بروک اب اس جہان فانی میں نہیں رہے ۔انہوں نے
خطے میں امن وسلامتی کے حوالے سے کوئی کارنامہ انجام دیئے بغیر
ہی عدم کی راہ لی ۔ان کے انتقال سے امریکہ بوجوہ افسردہ ہے
۔کشمیر کے قضیئے کو حل کرنے کا انہیں جو ایجنڈا سونپا گیا
تھااس پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی البتہ یہ بات طے
ہے کہ کشمیر کے بارئے میں امریکی پالیسی خاصی گو مگو کی شکار
ہے ۔چنانچہ مسئلہ کشمیر کے بارئے میں باراک حسین اوبامہ اسی
پالیسی پر گامزن ہیں جو اس مسئلہ کے بارئے میں ان کے پیشتروں
کی پالیسی تھی۔حالانکہ اپنے صدارتی الیکشن میں اوبامہ نے اعلان
کیا تھا کہ جب وہ صدر امریکہ منتخب ہوں گے تو مسئلہ کشمیر کے
حل کے لئے اقدامات کریں گے ایک طرف اوبامہ نے بھارت کے دورہ کے
دوران میڈیا کے سامنے اور پارلیمنٹ میں کہاکہ مسئلہ کشمیر ایک
درینہ مسئلہ ہے گویا بحثیت صدر اور یو این او پاور ممبر کی
حثیت سے کشمیر کے سلگتے ہوئے مسئلہ کی حساسیت کو تسلیم کیا۔
دوسری طرف اپنے پیش روں کی یہ رٹ دہراتے رہے کہ مسئلہ کشمیر کے
دو فریقوں بھارت و پاکستان کی رضامندی کے بغیر امریکہ نہ اس
مسئلہ میں مداخلت کر سکتا ہے اور نہ ہی ثالثی۔یہ غیر اصولی و
غیر اخلاقی منطق دیوانے کے بھڑ کے سوا کچھ نہیں لگتی۔کیونکہ جب
امریکہ نے عراق پر چڑھائی کی تھی تو کسی نے بھی چڑھائی کرنے کی
اسے دعوت نہیں دی تھی۔صدام حسین سے پہلے حماقتیں کرائی گئی۔ان
کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنی عسکری قوت کو ممکنہ حد تک
مضبوط بنایاہوا تھا امریکہ کو خدشہ تھا کہ کہیں عراق اسرائیل
پر حملہ کر کے اسے صفحہ ہستی سے مٹا نہ ڈالے اور اس نے کویت کا
بہانہ بنا |