Welcome to ContactPakistan.com
 

زندگی کا اجالا
افسانہ نگار : تبسم محسن علوی
دونوں بیٹیوں کے پیار بھرے محبت والے خطوط نے اس کے بوڑھے جھریوں سے بھرے چہرے کو گلاب کی طرح کھلادیا تھا ۔ ان خطوط کی مہکی مہکی خلوص کی خوشبو سے اس کا انگ انگ مہک رہا تھا۔ ایک خط پر امریکہ کی مہر چسپاں تھی اور دوسرا خط دو بئی سے آیا تھا ۔ دونوں خطوط کے موضوع اور محبت میں بھی یکسانیت تھی کہ؛ ’’ پیاری امی جان ! اباجانی کے انتقال کے بعد سے آپ بالکل تنہا ہوگئی ہیں۔ آپ کی تنہائی کی وجہ سے دل بڑا بے قرار اور بے چین رہتا ہے۔ آپ ہمارے پاس آجائیے ہم ٹکٹ ، پیسے اور ویزہ روانہ کر دیں گے۔ بس آپ آنے کے لئے ہاں کہہ دیجئے۔ آپ کی یاد بڑی ستاتی ہے۔‘‘ اس نے اپنی بوڑھی گیلی گیلی آنکھوں سے خطوط کو بار بار پڑھا۔ وہ کئی بار ان خطوط کی چاشنی کا مزہ لینے کے باوجود سیراب نہیں ہو پارہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کسی طرح اپنے ان بیٹوں کو سینے سے لگا لے۔ اس نے خطوط اپنی گود میں رکھ لئے اور اپنی تیسری بیٹی انیلا کے ہاتھوں کو بار بار چومنے لگی۔ ( جو اس کے بالوں میں کنگھا کر رہی تھی)۔انیلا ماں کی پیار بھری ادا پر مسکرا اٹھی۔۔۔۔ امی مجھے بھی آپی اور بجیا بہت یاد آتی ہیں۔ ۔۔ وہ بھی آپ کو بہت یاد کرتی ہیں اور آپ بھی ان کے لئے ویسے ہی تڑپ رہی ہیں ۔ اور اگر آپ ان لوگوں کے پاس کچھ دنوں کے لئے چلی جائینگی تو نہ صرف آپ کو سکون مل جائے گا بلکہ وہ بھی خوش ہو جائیں گی۔اس کی آنکھوں میں آنسوں کی جھڑی لگ گئی انیلا۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔ تم تینوں اپنی ماں کو معاف کردو۔ وہ انیلا کا ہاتھ تھام کر سسک پڑی۔ارے امی آپ کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔خدا کے لئے امی آپ مت روئیے۔ انیلا بھی ماں سے لپٹ کر رو پڑی۔۔۔بیٹی تو ! تیری بہنیں جو قدرت کی طرف سے میرے لئے عطیہ اور انعام ہیں۔ جن کو میں نے ہمیشہ نظر انداز کیا جن کی میں نے کبھی قدر نہیں کی ۔ آج زندگی نے مجھے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے میں اپنے ماضی پر شرمندہ اور ندامت کے آنسو لئے کھڑی ہوں بیٹی! تو وہ نعمت ہے وہ رحمت ہے جو گھروں میں اجالا کرتی ہے۔ اگر آج تم لوگ میری نہیں ہوتیں تو میں کہاں جاتی کس کے پاس جاتی۔ میں تو جیتے جی مر جاتی۔ مجھے معاف کردو میری بیٹیوں وہ دوبارہ سسک پڑی۔انیلا نے پیار سے ماں کے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا۔پیاری امی جان آپ آرام سے بیٹھ جائیے میں آپ کے لئے گرم گرم مزیدار چائے بنا کر لاتی ہوں۔۔۔انیلا کچن کی طرف دوڑ گئی اس نے اپنے بوڑھے وجود کو کرسی کی پشت پر ٹکا دیا۔ اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر آنکھیں موند لیں۔ذہن کے دریچوں میں اس کی زندگی کی ۳۵ سال پرانی ماضی کی فلم چلنے لگی۔جب اس کے یہاں شادی کے ۹ مہینے کے بعد ہی چاند سی بیٹی عائشہ نے جنم لیا۔ مگر اسے بیٹی کی چاند سی صورت ذرا بھی نہ بھائی۔کیونکہ وہ بیٹے کی خوہش میں اندھی تھی۔ پھر دوسری بیٹی ثناء نے دنیا میں آکر اسے اور ہی زیادہ غم زدہ کردیا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا وہ کیا کرے چپکے چپکے رو کر خاموش ہو گئی۔ بیٹے کی خواہش نے اسے اور آنسو بہانے پر مجبور کردیا تھا۔جب دوسال بعد نئی آمد کی خوش خبری کو اس نے محسوس کیا تو بس دن رات نمازیں اور منتیں مانگی جانے لگیں ۔ صبح شام یہی دعائیں کہ اس دفعہ بیٹے کی نعمت مل جائے۔مگر انیلا کی آمد نے اس کی تمام خواہشوں، تمناؤں کا خون کر ڈالا۔ بچی کی پیدائش اس کے لئے ماتم بن گئی۔ وہ ایسا پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ کہ مبارکباد دینے آنے والے سمجھے کے بیٹی میں کوئی عیب ہے جو یہ اتنا بلبلا رہی ہے۔ کوئی ایسا بھی کرتا ہے بچی کی پیدائش پر۔ماں باپ بلکہ ساس سسر نے بھی بہت سمجھایا کہ لڑکی تو اللہ کی رحمت ہے۔ اور جب ہم خوش ہیں تو تم بھی خوش رہو۔میاں بیچارہ بھی بڑا ہی محبت کرنے والا۔۔۔ بھئی جب مجھے کوئی شکایت نہیں ہے تو تم پھر بیٹی ہوگئی، بیٹی ہوگئی کا واویلا مچاکر مجھے کیوں خاندان بھر میں شرمندہ کرتی ہو۔ بیٹی تو اللہ کی وہ رحمت ہے جس سے انسان پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ ہم ان بیٹیوں کی بہترین پرورش کرکے دین اور دنیا کی خیر اور بھلائی حاصل کریں گے۔ مگر وہاں بس رونا پیٹنا اور کوسنے کہ اللہ کرے یہ بچیاں مرجائیں اور ان کے بدلے میں بیٹے مل جائیں۔تیسری بیٹی کے بعد تو وہ دنیا سے بیزار رہنے لگی تھی۔ شوہر اور والدین کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی جوش میں آئی کہ اس کی زندگی کی روشنی کے لئے اکھٹے دو جگنو اللہ نے اس کی جھولی میں ڈال دئیے۔ وہ ایسی نہال کہ بس دیکھنے والے حیران رہ گئے۔جڑواں بیٹوں کی آمد سے اس کی آنکھیں ایسی چکا چوند ہوئیں۔ کہ سوائے حارث اور شارق کے اسے اپنی بچیاں نظر آنا ہی بھول گئیں۔ ساری توجہ ساری لگن بس ان بیٹوں کی پرورش اور ناز ، نخروں پر۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو بھی بھی اپنے ان منتوں مرادوں سے پیدا ہوئے بیٹوں کے جسموں میں ڈال دے۔بچیاں بے چاری ماں کی محبت کو نہ پاکر باپ کے شفیق سائے میں عافیت محسوس کرتیں مگر زبان سے کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتیں۔ سمجھدار باپ نے بیوی کے لچھن دیکھتے ہوئے بچیوں کو اس انداز سے سمجھا نا اور تربیت دینا شروع کردی کہ وہ ماں کی محبت نہ ملنے کے باوجود وہ ماں سے شدید محبت کرتیں شاید اس کی سب سے بڑی وجہ عورت کے خمیر میں موجود محبت کا خزانہ ہے۔ماں کی زندگی کے چمن یہی دو پھول تھے جنکی نشو نما کے لئے وہ اپنا تن من دھن قربان کرتی جارہی تھی اور یہ معصوم کلیاں تو اس کے چمن کی ’’خود رو جھاڑیاں‘‘ بن کر رہ گئیں تھیں۔ جو زمانے کی نظروں میں اس کی اولاد ہی تھیں مگر بیٹوں اور بیٹیوں کے امتیازی فرق کی مثال بنی ہوئیں تھیں۔ ہر اچھی چیز کے حقدار بیٹے ہوتے۔ گھر میں جو مزیدار چیز یں بنتیں پہلے بیٹوں کو کھلا کر ان کا پیٹ بھر کر پھر بیٹیوں کا حصہ۔ اچھے بہترین کپڑے کتابیں کھلونے غرض ہر ضرورت زندگی پر بیٹوں کا جتنا حق تھابیٹیاں خا موشی سے محروم کر دی جاتیں۔ باپ کبھی کبھی دبے لہجوں میں دبے لفظوں میں احتجاج بھی کرتا۔ تو وہ ان لفظوں میں خاموش کرادیا جاتا کہ۔ارے یہ بیٹیاں کیا دے دیں گی اپنے اپنے گھروں کو چلی جائیں گی ٹھنڈی چھاؤں تو یہ بیٹے دیں گے یہی ہم بڈھے بڑھیا کا سہارا بنیں گے۔ ان لڑکیوں سے ہمیں کیا فائدہ ملے گا۔باپ اس کی چلتی ہوئی زبان سے پناہ مانگتا ہوا خاموش ساہو جاتا۔۔۔مگر آج جب وہ بڑھاپے کی منزل پر پہنچ چکی تھی تو یہی خود رو جھاڑیاں ’’ بہار‘‘ بن کر اس کی خزاں رسیدہ زندگی کو مہکا رہی تھیں اور وہ دو پھول وہ سہارے جن کے سہارے کی امید خوانی کی سب بڑی خوشی تھی دم توڑ چکی تھی۔بیٹے اس کی جان اس کی آرزوؤں اس کی تمنا ؤں اس کی خواہش اس کی محبت کا محور اس کی ممتا کا مرکز اب کہاں تھے ارے میرے بیٹوں تم کہاں کھو گئے ہو۔شارق امریکہ کی رنگینیوں رعنائیوں میں ماں کی تمام محبت اور قربانیوں کو بھول چکا تھا۔ بہترین مستقبل کی خواہش نے اسے ماں سے ایسا بیگانہ کردیا تھا کہ تین سال سے نہ ہی اس کا کوئی خط ملا تھا نہ ہی کوئی ٹیلی فون، وہ امریکہ میں اپنی بنائی دنیا میں خوش اور مگن تھا۔اور دوسرا بیٹا حارث برے دوستوں کی صحبت کا شکار ہو کر چرس کے نشے میں دھت اس کے بوڑھے معصوم دل پر کاری ضربیں لگاتا اس کو تڑپاتا رہتا تھا۔ ہرطرح سے ڈانٹ کر سمجھا کر کوششیں کر ڈالیں کہ وہ یہ بری عادت چھوڑ دے اس زہر سے چھٹکارا حاصل کرلے جو اسے موت کی طرف گھسیٹے لئے جارہا ہے۔ مگر بے سدھ باپ بے چارہ تو محبت کی ماری ماں کا انجام دیکھنے کے لئے زندہ ہی نہیں رہنا چاہتا تھا اس لئے کچھ دن پہلے ہی خاموشی سے موت کی چادر تان کر سو گیا تھا۔اب وہ تھی اس کی بیٹیاں۔ دونوں بڑی بیٹیاں شادی کے بعد دور جانے کے باوجود ماں باپ کی یاد کو فراموش نہیں کر پائیں۔ ہر ہفتے ٹیلی فون اور خطوط کے علاوہ اس کی مالی مدد بھی کرتی رہتی تھیں۔ جس سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ اور چھوٹی بیٹی انیلا بھی شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنے شوہر اور بچیوں کو چھوڑ کر روزانہ اس کی خدمت کے لئے بھاگی آتی۔اس کو خوش رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرتی یہ وہ بچیاں تھیں جن کی پیدائش پر اس نے انھیں اپنے نصیب کا اندھیرا سمجھا تھا۔مگر وہی تو اس کی زندگی میں اجالا کر رہی تھیں۔ اور وہ جن کو وہ ہمیشہ روشن چراغ سمجھتی رہی جن کو اپنا خون پلا پلا کر جوان کیا وہ۔۔۔ میرے زخمی وجود کی کرچیاں سمیٹنے کے لئے میری پیاری پیاری بیٹیاں اللہ کا انعام ثابت ہو رہی ہیں۔اس نے بڑی حسرت سے سامنے لگی دونوں بیٹوں کے ساتھ درمیان میں خود بیٹھی ہوئی تصویر کوغور سے دیکھا ۔ اف یہ میرے ناخلف بیٹے۔بے اختیار اس نے اللہ کی حکمت سے شرمندہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ لیا اور سسک پڑی اور اس کے لبوں پر یہ الفاظ مچل اٹھے ۔
 اے میرے مالک کاش! مجھے ان بیٹوں کے بدلے تو دو بیٹیاں اور عطا کردیتا۔‘‘
 

 


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice