غزل
محسن علوی جدہ
سعودی عرب
ہم
اگر دل کا تمھیں حال سنانے لگ
جائیں
حال دل سننے میں تم کو بھی زمانے
لگ جائیں
تیرے کہنے سے میں خاموش ہوں اے دل
لیکن
خود ہی پلکوں پہ کہیں اشک نہ آنے
لگ جائیں
کبھی گزرے ہوئے موسم کبھی بیتے
ہوئے دن
یاد آجائیں تو پھر ہم کو رلانے لگ
جائیں
واہ رے کشمکش وقت محبت کے نثار
کبھی رنجش ہو تو پھر ساتھ نبھانے
لگ جائیں
ہم نے خود کو بھی یہی سوچ کے روکے
رکھا
جانے کیا ہو جو اگر تیر نشانے لگ
جائیں
جانے کیا رسم چلی ہے تری دنیا میں
خدا
سر اٹھاتا ہوں تو سب لوگ گرانے لگ
جائیں
دردِ دل اس پہ یہ انداز کہیں کیا
خود کو
کوئی مل جائے تو ہم شعر سنانے لگ
جائیں
دل تو دشمن کے کسی وار سے زخمی نہ
ہوا
پر اگر دوست جو اب تیر اٹھانے لگ
جائیں
ان کی قربت کی مہک مجھ پہ عجب رنگ
بنے
مرے دل پر مرے احساس پہ چھانے لگ
جائیں
یہی خواہش ہے زمانے کے بھلے کی
خاطر
چاہے دل سے بھی کوئی مانے نہ مانے
لگ جائیں
میری مٹی تری ا لفت میں تمنا دل
کی
دل کی دھڑکن پہ فقط تیرے ترانے لگ
جائیں
دوستی تیر ا بھلا ہو کہ ترا نام
تو ہے
ورنہ سب لوگ مرے دل کو جلانے لگ
جائیں
رب کی الفت کے ہوں صدقے اسی عظمت
کے نثار
اسکی رحمت ہو تو ہم بھی نظر آنے
لگ جائیں
انکے انداز پہ یہ سوچ کے خاموش
رہے
وہ کہیں ہم سے محبت نہ چھپانے لگ
جائیں
داستاں سن کے ہر اک شخص ہی رنجیدہ
ہو
داستانوں میں اگر میرے فسانے لگ
جائیں
حسن نے خود کو سنوار ا ہے خدا خیر
کرے
عشق والے بھی ذرا خیر منانے لگ
جائیں
درد دل تھام کے کہتا ہے یہ محسن ہم
سے
دولت درد کو ہم دل سے کمانے لگ
جائیں