Welcome to ContactPakistan.com
 

لہو کا رنگ ایک ہے
افسانہ نگار : تبسم محسن علوی
کتاب آدم اور حوا سے سے ایک افسانہ
 
جیسے ہی کاشف نے گاڑی شاپنگ سینٹر کی پارکنگ لاٹ میں پارک کی۔۔۔ ایک عورت سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔
سونیا نے سرسری نظریں اس پر ڈالیں اور پرس سے دس کا نوٹ نکال کر دیا۔۔۔ مگر۔۔؟؟؟
وہ حیران رہ گئی کہ عورت نے اس دس کے نوٹ کے پرزے پرزے کر ڈالے اور بھیا نک سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر چھا گئی۔۔۔ اس نے اشارے سے ننھے نومی کی طرف اشارہ کیا کہ یہ چاہیے ہے۔۔۔۔
سونیا نے گھبرا کر نومی کو اچھی طرح سینے سے چمٹا لیا۔
کاشف جب گاڑی لاک کرکے سونیا کے پاس پہنچے تو وہ سہمی سہمی نظروں سے اسی عورت کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ کاشف کو دیکھتے ہی اس نے تیزی سے آگے کی طرف قدم بڑھادئیے ۔
مگر وہ بوڑھی پاگل سی عورت ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ مارے ڈر و خوف کے سونیا سے چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔
اتنے میں ایک عورت اپنے دو بیٹوں کا ہاتھ پکڑے سامنے سے آتی ہوئی دکھائی دی ۔
پلک جھپکتے ہی وہ پاگل عورت اس آنے والی عورت کے ایک بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگی۔۔۔۔۔۔
عورت اور اس کا بچہ بری طرح سے چیخ اور چلا رہے تھے۔۔۔ یہ تماشہ دیکھ کر میرے قدم بھی وہی رک گئے۔۔۔
کاشف اور کئی اور لوگوں نے اس معصوم بچے کو اس پاگل عورت کی گرفت سے چھڑا لیا۔۔۔
اور وہ پاگل عورت روتی چلاتی جاتی اور زمین پر پڑی ہوئی خاک اپنے غلیظ کپڑوں اور بالوں پر ڈالتی جاتی اسے کچھ ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے پیار سے اس روتی بلکتی ہوئی عورت کا ہاتھ پکڑا اور کسی گلی میں گم ہوگیا۔۔۔۔
سونیا کا دل اب شاپنگ میں ذرا بھی نہیں لگ رہا تھا۔ چند الٹی سیدھی چیزیں خرید کر اس نے کاشف سے کہا کہ اب گھر چلتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں اس پاگل عورت کو دیکھ کر دل عجیب سا ہو گیا ہے۔
ارے اتنے شوق اور اصرار کرکے تم مجھے زبر دستی لے کر آئی تھیں اب دل گھبرانے لگا۔۔۔
چھوڑو ڈئیر بازاروں میں اس جیسے ہزاروں پاگل گھومتے رہتے ہیں۔۔۔
اب تو وہ بھی چلی گئی ہے تم آرام سے شاپنگ کرلو۔۔۔۔ مگر سونیا کا دل کسی طرح سے بھی بازار میں نہیں لگ رہا تھا۔ چلو کاشف میری طبیعت خراب ہو رہی ہے۔
ابھی وہ لوگ گاڑی تک پہنچے ہی تھے کہ انہیں وہی شخص نظر آیا جو عورت کا ہاتھ پکڑ کر لے گیا تھا۔ کاشف اس سے پاگل عورت کا پوچھئے نا۔۔۔۔
کیا پوچھوں؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی نا کہ وہ کون تھی؟؟؟ اس کے ساتھ کیا ہو ا ۔ نجانے کیوں مجھے وہ بہت دکھی اور ممتا کی بہت پیاسی عورت لگ رہی تھی۔ کوئی بات ضرور ہے۔
ایک تو تم عورتوں کی قیاس آرائیوں سے عاجز ہوجاتا ہوں۔ یہ ٹوہ کی عادت بہت بری ہے۔۔۔۔
پوچھئے نا پلیز!!!،،،،،،،،،،،
کاشف نے سامنے جاتے ہوئے آدمی کو آواز دی۔۔۔۔ سنیے ذرا۔
وہ آدمی چونک پڑا۔ جی فرمائیے۔
یہ پاگل عورت کون تھی؟؟ میرا مطلب یہ ہے کہ کیا ہوا اس بے چاری کے ساتھ۔۔۔۔
جی جناب بس زمانے کی گردش نے اس بے چاری کو پاگل بنا دیا ۔ ورنی یہ تو بڑی سمجھ دار خاتون تھی۔۔
کیا ہوا اس بے چاری کے ساتھ۔۔۔۔ سونیا نے بڑی بے تابی سے پوچھا۔۔
بہن بہت لمبی کہانی ہے۔۔۔
آپ کو کہاں جانا ہے؟؟ کاشف نے اسے آفر دی کہ وہ اس کو ڈراپ کردے گا۔۔۔
جانا تو نارتھ ناظم آباد ہے مگر آپ کو زحمت ہوگی۔۔
نہیں نہیں زحمت کی کوئی بات نہیں ہم بھی وہیں جارہے ہیں۔ کا شف نے گاڑی کا آگے کا دروازہ اس اجنبی کے لئے کھول دیا۔سونیا پیچھے بیٹھ گئی اس نے سوئے ہوئے نومی کو آرام سے سیٹ پر لٹا دیا۔۔۔
رسمی انداز کی گفتگو کے بعد جب بات پھر اس پاگل عورت پر آئی تو اس اجنبی نے جس کا نام سلیم یوسفی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پاگل عورت کی داستان کچھ یوں سنا نی شروع کی۔
بس کیا بتاؤں یہ بڑی دکھیا ری عورت ہے پہلے ہمارے محلے میں ہی رہتی تھی۔ خالہ رشیدہ کے نام سے سب اس کو پکارتے تھے۔ بڑی ہی نیک دل ، ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھی۔ شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے ۱۹۴۷ ؁ء میں پاکستان پہنچی تھی سب لوگوں کو اپنی ہجرت کے قصے بڑے شوق سناتی تھی کہ وہ صرف پندرہ برس کی تھی جب وہ سسرال پہنچی تھی شادی ہوکر۔ اور شادی کو صرف دوماہ ہوئے تھے کہ اسلام کے نام پر پاکستان وجود میں آگیا۔ اور اپنی ساری جائیداد روپیہ پیسہ گھر دالان سب چھوڑ کر عزیز و اقارب دوست احباب کو خدا حافظ کہہ کر دونوں میاں بیوی پاکستان کی دھرتی سے عشق نبھانے چلے آئے۔۔۔۔
پاکستان سے بہت محبت کرنے والے یہ دونوں میاں اور بیوی ہنسی خوشی ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے شوہر آرمی میں بھرتی ہوگیا اور ۱۹۶۵ ؁ء میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت
پا گیا۔۔۔
مظلوم عورت نے مسکراتے ہوئے بڑے عزم کے ساتھ شوہر کی جدائی برداشت کر لی۔
اسے بڑا فخر تھا کہ اس کا شوہر سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا۔۔۔۔
اتنے بڑے غم کو اس نے اپنے تین بیٹوں اکبر ، عظمت اور اصغر کے سہارے جھیل لیا۔ امیدوں کے چراغ روشن کئے وہ کڑی راہوں کا اندھیرا دور کرنے میں مصروف ہو گئی۔
وہ قدرت کی ستم ظریفی پر صبر و شکر سے سلائی کڑاہی کرکے اور محلے کے بچوں کو قر آن پڑھا کر اپنے تینوں لڑکوں کو پالتی رہی۔ سارا دن محنت کرکے جو کچھ بھی ملتا اپنے بچوں کو کھلا دیتی۔۔۔۔
کبھی کوئی کہتا کہ رشیدہ اپنی صحت کی طرف بھی تو دیکھو۔۔۔۔
تو وہ جواب دیتی ابھی ان بچوں کو جوان ہونے دو سارے دکھ اور درد دور ہو جائینگے۔۔۔
ساری تکلیفیں مٹ جائینگی۔ ان کی کمائی سے خوب کھاؤں پیوں گی۔۔۔ مگر ابھی ان کے دن ہیں ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔۔۔۔۔ ان کی پرورش ہی میرا کام ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے جب یہ بوجھ اور ذمہ داری ڈالی ہے تو وہی میری مدد بھی کرے گا۔
شوہر بھی فوج کے کسی چھوٹے سے عہدے پر تھا اس لئے پنشن بھی کوئی خاص نہیں ملتی تھی۔ بس یہ کوہلو کے بیل کی طرح سارا سارا دن کام کرتی رہتی اور اپنے بچوں کے لئے آرام و آسائش کا بندوبست کرتی۔۔۔ انہیں اچھے اسکول میں پڑھانے کی تمنا نے اسے اور بھی زیا دہ محنت پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔
تھوڑے عرصے میں اکبر کو محلے کے بڑے اسکول میں داخل کردیا۔ پھر باری باری عظمت اور اصغر کو بھی داخل کردیا۔۔ زندگی کے بوجھ کو وہ اپنے کاندھوں پر ڈالے ڈالے جب وہ تھک جاتی تینوں بچوں کی شکلیں اسے جینے کا حوصلہ فراہم کرتیں۔۔۔۔
ایک نہ ایک دن ضرور خوشیاں شادمانیاں اس گھر کا بھی مقدر ہوں گی ایک نہ ایک دن تو میرے آنگن میں بھی مسرتوں کا سورج طلوع ہوگا۔۔۔
یہ بچے میرے لئے اللہ کا انمول تحفہ ہیں۔ یہی میرے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ وہ آنکھوں میں نئے آنے والے سنہرے دنوں کے سپنے سجائے وقت کے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی۔ لڑکوں نے ابھی جونی کی دھلیز پر ہی قدم رکھا تھا۔۔۔ بڑے بیٹے نے پورے اسکول میں ٹاپ کیا تو میٹرک کا رزلٹ لئے لئے وہ اس طرح پورے محلے میں مٹھائی بانٹ رہی تھی جیسے بیٹا کوئی انجینئر یا ڈاکٹر بن گیا ہو۔۔۔۔ اس کے چہرے پر پھوٹتی خوشیاں ایسے معلوم ہورہی تھیں جیسے اس نے لعل قلعہ فتح کرلیا ہو۔
تو کیا اس کے بیٹے بڑے ہوکر اس کو چھوڑ کر چلے گئے؟؟؟
سو نیا نے درمیان میں پوچھا؟؟
نہیں بہن بیٹے خود چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ۔۔۔۔ بس بہن شہر کی ان فرقہ واریت والی خون آشام راتوں نے انہیں نگل لیا۔۔۔۔ ان بے ضمیر سنگدل فرقہ پرست انسانوں نے اس کے گلشن کو آگ لگادی جنہوں نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بسنے والے شہر کراچی کو لہو لہان کردیا ہے۔۔
کیا ہوا تھا؟ پوری تفصیل بتائیے۔ کاشف نے سوال کیا؟؟؟
اس نے بتایا، بڑا بیٹا اکبر اسی سیاست اور دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ایک دن بند بوری میں اس کی لاش کے ٹکڑے اس کے گھر کے دروازے کے سامنے ملے تو سارے محلے پر موت کا سناٹا چھا گیا۔۔
اور یہ دکھیاری عورت اپنی ممتا بھری محبت سے مجبور اس نے ان ٹکڑوں کو یکجا کرکے اس کی لاش کو مکمل کرکے پلنگ پر لٹا دیا۔۔۔۔ اور اس کے ایک ایک جسم کے حصے کو چومے چاٹے جارہی تھی۔بس کاشف صاحب آج بھی اس منظر کو یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ معصوم شہزادوں کی طرح کا اکبر صرف ۲۰ سال کی عمر میں قبر کی تاریکی میں جا سویا۔۔۔ وہ تو جیتے جی مرگئی۔۔۔ رات کی تاریکی میں اس کا رونا سارے محلے کو رلا دیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں چھوٹے بھائیوں عظمت اور اصغر نے بھائی کی لاش پر کھڑے ہو کر قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لیں گے۔ سولہ سترہ سال کی جذباتی عمر سب محلے والوں نے سمجھا یا، دکھوں کی ماری ممتا نے بہت منع کیا۔۔۔ مگر وہ دونوں اکبر کے قاتلوں کو ڈھونڈتے رہے۔۔۔ ڈھونڈتے رہے۔۔۔۔
تو کیا اکبر کے قاتل پکڑے گئے؟؟۔۔۔
اس اندھیر نگری میں جہاں جھوٹ ،فریب ،خود غرضی، خود پرستی ، ہوس پرستی نے انسانوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے ۔ جہاں قدم قدم پر مکروہ چہروں کا راج ہے۔ جہاں پر ضمیر فروش رہنماؤں نے قوم کو فرقوں میں تقسیم کردیا ہے۔۔۔ جہاں پر لگتا ہے کہ اب یہاں بسنے والوں کا کوئی دین اور ایمان ہی نہیں، وہاں بہن اصل قاتلوں کو کون پکڑ سکتا ہے۔۔۔ پکڑے بھی جاتے ہیں تو بے گناہ۔۔۔ اصل قاتل تو دھڑلے سے ہمارے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں۔۔ مگر وہ ہوگیا جس کا ڈر جس کا خوف ہر محلے والے کے ذہن میں گونجتا رہتا تھا۔۔۔
یعنی عظمت اور اصغر بھی اسی درندگی کا شکار ہوگئے، ایدھی ٹرسٹ کے ذریعے جب دونوں معصوم بھا ئیوں کی لاشیں محلے پہنچیں تو کہرام مچ گیا ۔۔۔۔ ہر آنکھ اشکبار ہر ماں کا کلیجہ جیسے چھلنی چھلنی ہو گیا تھا۔۔۔ کچھ مت پوچھئے کیا قیامت کا سماں تھا۔ سلیم یوسفی کی آواز رندھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ۔۔۔۔۔ رشیدہ۔۔۔۔۔۔۔ سونیا نے اپنے گالوں پر آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے پوچھا؟؟۔۔
وہ ماں جس نے اپنی ساری جوانی ان بیٹوں پر نچھاور کردی، اس کو کیا ملا؟ جس نے اس دھرتی سے سچی اور پرخلوص محبت کی ، اپنے بچوں کو بھی ایک بہترین انسان اور اچھا شہری بنانے کے لئے بے انتہا محنت کی۔ زندگی کی راہ میں محبت والفت، ایمانداری و دیانتداری، صبر و شکر سے سجائے رکھا جس وطن کی دھرتی کو پہلے اپنے سہاگ کا نذرانہ پیش کرچکی تھی۔ اور اسی میں اب اس کے جگر گوشوں کو اس دھرتی پر بسنے والے ظالموں سنگدلوں نے چھین لیا۔۔۔کاشف کی آواز میں بڑا ہی درد پنہاں تھا۔۔۔۔
سلیم صاحب ’’یہ وطن جو صرف اسلام کے نام پر بنا۔۔۔۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے مسلمانوں کے درمیان خون، رنگ و نسل، زبان اور جغرافیائی تفریق کے تمام بتوں کو پاش پاش کردیا تھا۔۔۔اور صرف اور صرف ایک یکجان امت مسمہ کا نام دیا تھا۔۔ مگر پاکستان میں دشمنوں کی چالوں نے اور غداروں کی سازشوں نے مسلمان اور مسلمان کے درمیان ناقابل عبور دیواریں و فصیلیں کھڑی کردی ہیں۔ کوئی پنجابی کہلاتا ہے تو کوئی سندھی اور بلوچی ہونے پر فخر کررہا ہے تو کئی پٹھان اور مہاجر ہونے پر جھگڑ رہا ہے۔ مگر کوئی بھی اپنے آپ کو سچا محب وطن پاکستانی کہنے پر فخر نہیں کرتا ۔۔۔۔ حیرت ہے تو ان کے احمق اور ناسمجھ ذہنوں پر بھلا کوئی اپنی جائے پیدائش پر فخر کرتا ہے۔ فخر تو انہیں صرف اپنے مسلمان ہونے اور اپنے پاکستانی ہونے پر کرنا چاہیے ہے‘‘
جی ہاں کاشف بھائی۔۔۔ اصل افسوس تو یہی ہے کہ کوئی ان باتوں پر دھیان ہی نہیں دیتا۔ انہی سازشوں اور حکمرانوں کی ہوس اقتدار نے پاکستان کے ایک بازو کو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنا ڈالا ۔ تعصب اور فرقہ پرستی کی آگ نے کیا کچھ جلا کر بھسم نہیں کیا مگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن لینے کے بجائے انہی پستیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں کے عوام یہاں کے حکمراں دعوے تو بڑے بلند و بانگ کرتے ہیں مگر عملی اعتبار سے سب ہی کھوٹے سکے نظر آتے ہیں۔ صرف نعروں اور دعوں سے۔۔۔۔۔۔۔
ترقی کا راستہ یہی ہے کہ ہم شرپسندوں کی سازشوں اور چالوں میں آکر اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کے بجائے، اپنے ہی گلشن کو اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کرنے کے بجائے۔ مضبوطی سے ایک دوسرے کے بازوؤں کو ہاتھوں کو تھام لیں۔۔۔ اور ’’واعتصمو بحبل للہ جمیعاًو لا تفرقو‘‘
کے مطابق ایک ہوجائیں۔ پنجابی، پٹھان، مہاجر، بلوچی اور سندھی بنے کے بجائے صرف اور صرف مسلمان اور سچے پاکستانی بن جائیں اور اللہ کی رسی کو قرآن کے حکم کے مطابق سب مل کر مضبوطی سے تھام لیں۔ اس پاک سرزمین اس مقدس دھرتی کی خاک کا حق ادا کریں اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششوں میں لگ جائیں۔ اور ایسی ایثار و قربانی، رواداری و بھائی چارگی کی فضا قائم رکھیں۔ اس گلشن پاک میں محبت و الفت، ایمانداری و دیانتداری، محنت و ہمت کی جوت کو جگائے رکھیں جس جداگانہ تہذیب و تمدن کے لئے ہم نے اس ’’’پا کستان‘‘‘‘ کو حاصل کیا تھا۔۔۔۔ اسی تہذیب و تمدن کی راہ کے راہی بن کرہی ہم کامیابی اور کامرانی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔۔۔
۔ سلیم صاحب پھر کیا ہوا اس عورت رشیدہ کے بارے میں تو بتائیے ۔۔۔
بس بہن یہ تو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور چھن جانے کے بعد سے ہی اپنی رہی سہی شدھ بدھ بھی کھو بیٹھی۔

 


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice