انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان برائے سعودی عرب کا ٹیکنیکل سیمینار

Email: sjmughal@hotmail.com

 رپورٹ:سعید جاوید مغل....................، الریاض

انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان برائے سعودی عرب  نے گزشتہ دنوں ایک مقامی فائیو سٹار ہوٹل کے ہال میں34 ویں سیمینارکا اہتمام کیا جس کا موضوع تھا "پاکستان کے برقی توانائی کے مسائل، مشکلات ، اور انکے حل"۔ اس سیمینار کے مہمان سپیکر انجینئر اختر علی چیف ایگزیکٹو آفیسر پرو پلان ایسوسی ائیٹس کراچی پاکستان تھے۔ سفیر پاکستان ڈاکٹرعمرخان علی شیرزئی کی بنابت کرتے ہوئے مہمان خصوصی سفارتخانہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہیڈ آف چانسری صفدر حیات تھے اورسیمینارکی صدارت انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان برائے سعودی عرب  کے چیئر مین انجینئر سید جلیل حسن نے کی جبکہ اس سیمینار کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجینئر مبشر کرمانی (جنرل سیکریڑی انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز ) نے ادا کئے۔

 

 

سیمینار کا آغار بقاعدہ تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا جس کی سعادت انجینئر عمر علوی نے حاصل کی، اسٹیج سیکرٹری انجینئر مبشر کرمانی نے اس سیمینار کے انعقاد کی غرض و غائید اور مہمان سپیکرکا تعارف پیش کیا، انہوں نے مہمانوں کو بتایا کہ آج کے سیمینار کے مہمان سپیکرپاکستان سے حج کیلئے سعودی عرب تشریف لائے اورآج ہماری دعوت پر اس سیمینار میں جدہ سے تشریف لائے ہیں۔ میں ان کو انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان برائے سعودی عرب اور اپنی طرف سے انہیں حج کی سعادت حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، مہمان سپیکر 8 ٹیکنیکل کتابوں کے مصنف ہیں، تعارف کے بعد انہوں نے مہمان سپیکر کو سیمینار سے خطاب کی دعوت پیش کی۔

 

 

 

 

 

انجینئر اختر علی نے سلائیڈز کے ساتھ اپنے موضوع ’’پاکستان کے برقی توانائی کے مسائل، مشکلات ، اور انکے حل‘‘کو پیش کیا،پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے تین ذرائع ہیں۔ 1ہائیڈل، 2۔ تھرمل (گیس ، بھاپ ، فرنس آئل) اور3۔ ایٹمی توانائی۔ پاکستان میں چار قسم کے ادارے بجلی کی پیداوار میں حصہ لیتے ہیں۔ واپڈا ، کے ای ایس سی (کراچی) ، پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن اور آزاد طور پر بجلی پیدا کرنیوالے چند ادارے۔ ہماری حکومت کے پاس لوڈشیڈنگ کا حل نکالنے کے ایک ہی طریقہ ہے کہ رینٹل پاور پلانٹس لگائے جائیں۔ جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے اپنی رپورٹ میں کہہ دیا تھا کہ یہ ایک انتہائی مہنگا ذریعہ ہے لیکن حکومت نے اسے نظرانداز کردیا اور انتہائی تنقید کا نشانہ بنایا۔ دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ رینٹل پاور پلانٹس ناقابل استعمال ہیں اور حکومت ان پر کروڑوں روپے بینکوں کو سود دے چکی ہے۔

 

 

 

 توانائی کے حصول کیلئے حاصل چند ذرائع کا ذکر ( جوانہوں نے ذرائع کے عدادو شمار انٹرنیٹ سے حا صل کئے تھے) کیا کہ پاکستان میں شمسی توانائی سے 7 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ بجلی کی پیدوار کے لئے اوسط 10 گھنٹے کی روشنی درکار ہے جبکہ پاکستان میں اوسط 16 گھنٹے بجلی دستیاب ہے۔سولر انرجی سے حاصل ہونیوالی بجلی انتہائی سستی ہے جبکہ پاکستان ایک میگاواٹ بجلی بھی اس کے ذریعے حاصل نہیں کرتا لیکن پاکستان میں بعض نجی ادارے ایسی ڈیوایسز بنارہے ہیں اور کچھ جگہوں پر نجی طور پر اس سے بجلی بھی حاصل کی جارہی ہے۔ہوا سے بجلی،پاکستان میں ہوا سے 2 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔پن بجلی، پاکستان میں پانی سے ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے مختلف ذرائع ہیں جیسے ڈیم، نہریں، دریا، سمندر وغیرہ۔ پاکستان 6500 میگاواٹ بجلی ڈیموں کے ذریعے حاصل کرتا ہے یعنی ہماری کل ضروریات کا 33% پن بجلی سے پورا کیا جاتا ہے۔ پن بجلی کی لاگت 2 روپے فی یونٹ بنتی ہے جبکہ تھرمل بجلی کی لاگت 14 روپے فی یونٹ ہے۔ پاکستان میں منڈا ڈیم اور بھاشا ڈیم بنانے کے لئے نام نہاد اتفاق رائے حاصل کیا جارہا ہے اگر یہ بنتے ہیں تو منڈا ڈیم 750 میگاواٹ اور بھاشا ڈیم 1250 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس ڈیم کے پانچ سالوں میں پیسے پورے ہوجائیں گے۔ ان ڈیموں کے بننے سے تربیلا کی عمر میں چالیس سال کا اضافہ ہوجائیگا۔ اگر حکومت یہ ڈیم نہ بھی بنائے۔صرف پنجاب اور سندھ کی نہروں پر ٹربائیں لگوا دے تو 1000 میگاواٹ باآسانی بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔چائنہ جہاں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم موجود ہے اس ڈیم سے وہ 26000 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔کوئلے سے بجلی، پاکستان میں کوئلے سے اگلے 800 سال تک 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جو دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر کی کل مالیت 25 کھرب ڈالر بنتی ہے۔ کوئلے سے حاصل ہونیوالی بجلی 3 روپے فی نونٹ بنتی ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر سالانہ 6 ارب ڈالر تیل کی بچت ہوگی۔ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر خوشاب، چکوال، میانوالی اور تھر میں ہیں۔ حال ہی میں ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تھرکول میں ایسا ہی پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ ان کے مطابق ان ذخائر سے نہ صرف بجلی بلکہ گھروں کے لئے گیس اور ڈیزل بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ پراجیکٹ ابھی چل رہا ہے لیکن بعض ممالک اسے رکوانے کے لئے سرگرم ہیں کہ یہ پراجیکٹ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے گا۔ پاکستان میں پٹرولیم مافیا اور انرجی مافیا بھی یہ پراجیکٹ رکوانے کے لئے سرگرم ہے۔نیوکلئیر انرجی، پاکستان میں نیوکلئیر انرجی سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جوہری توانائی کی مددسے تھرمل پاور کی نسبت 35 فی صد سستی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔جیوتھرمل انرجی، پاکستان میں جیو تھرمل پاور سے 35000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ زمین کی اندرونی حرارت سے انرجی کا حصول جیو تھرمل انرجی کہلاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ زمین میں دو سوراض کرکے ایک سے پانی کو زمین میں پمپ کیا جاتا ہے اور دوسرے سے بھاپ زمین پر آتی ہے جس سے ٹربائین کو چلایا جاتا ہے۔ جیو تھرمل سے بجلی کی پیداوار، عمارات کو گرم کرنے، آبی پودوں کی کاشت اور گرین ہاؤس کے کام لئے جاتے ہیں۔ فلپائن 23% بجلی اسی ذریعے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ پن بجلی سے بھی سستی ہے۔میرا معلومات دینے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ توانائی کے کئی ذرائع ہیں لیکن حکومت کیوں مہنگے ذرائع پر زور دیتی ہے کیا حکومت کو نہیں پتہ کہ بجلی کے بہت سے ذرائع ہیں۔ پھر کیوں رینٹل پاور پلانٹس پر زور دیتی ہے اگر حکومت سستے ذرائع پر کام کرے تو نہ صرف صنعتیں چلیں گی بلکہ روزگار بھی ملے گا اور روزمرہ کی اشیاء بھی کسی حد تک سستی ہوجائیں گی۔ جہاں تک رینٹل پاور کا تعلق ہے تو اس کے پیچھے بھی وہ کرپٹ لوگ ہیں جو کمیشن کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بجلی کی پیداواری صلاحیت ہماری ضروریات کو کافی ہے اور بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ موجودہ، سابقہ و سابقین کی نااہلی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس معاملے میں چستی اور ایمانداری دکھائے اور رینٹل پاورز ، جینریٹر و یو پی ایس کمیشن و کاروبار مافیا کو کنٹرول کرے تاکہ نہ صرف لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے بلکہ ملکی برآمدات کا جو بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ کاروبار میں مسلسل مندی ، بے روزگاری ، افراط زر کی شرح میں تیزی سے ہوتا اضافہ ، برآمدات میں واضح کمی ہے۔اب تو دنیا بھر میں دوسرے کئی ذرائع سے بھی خوب بجلی پیدا کی جا رہی ہے جیسے شمسی توانائی ، ہوائی پنکھے و سمندری لہریں وغیرہ مگر شاید یہ ٹیکنالوجیز ہماری قوت خرید سے باہر ہیں مگر میرے خیال میں اگر اس پر حکومت و ‘‘بڑے بڑے‘‘ حضرات سنجیدگی سے توجہ دیں تو اس قدر مشکل نہیں۔

 


ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زیر قیادت سائنسدانوں کی ایک ٹیم ’’تھر کول گورننگ باڈی’’ کے نام سے تشکیل دی گئی تھی جس کی ذمہ داری زیر زمین موجود کوئلے کو جلا کر اس سے توانائی حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرنا تھا۔ اس ذریعے سے تجرباتی طور پر 100میگا واٹ بجلی کی پیداوار آخری مراحل میں ہے جبکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت آئندہ تین برسوں میں حاصل ہو جائیگی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے پچاس ہزار میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل سے بھی مبرا ہوگی اور ایک مدت تک ملک کی توانائی کی ضروریات بھی پوری کر سکے گی ۔ کوئلہ سے بجلی بنانے کیلئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو پائلٹ پراجیکٹ دیا ہے جو کوئلہ باہر نکالے بغیر ہی بجلی پیدا، آئل اور کھاد فراہم کریں گے جبکہ 32 چھوٹے بڑے ڈیمز بھی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان تھر کوئلہ سے 800 سال تک 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے آئندہ تین سال میں ایک ہزار میگاواٹ کا پہلا پاور پلانٹ کام شروع کر دے گا۔توانائی کی قلت سے صنعتوں کی پیداوار کم ہو گئی، قدرتی ذرائع کو استعمال میں لا کر بحران پر قابو پایا جائے۔


ہماری توانائی پیدا کرنے کی پالیسی میں بہت سی خامیاں ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے میں تھرمل پاور کے طریقے پر زور دیا جس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے کیونکہ اس کا انحصار درآمدی تیل پر ہوتا ہے اس طرح جو بجلی اس ذریعے سے پیدا کی جاتی ہے وہ بہت زیادہ مہنگی پڑتی ہے جس سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور قوم سرکلر ڈیبٹ کی لعنت سے دوچار ہے لہذا ہمیں چاہیئے کہ اس طریق کار کو فوری طور پرخیرباد کہہ کر ہائیڈرو پاوراور کوئلہ کی گیس سے چلنے والے توانائی کے حصول پر توجہ دیں۔ ملک میں توانائی کی کمی اور بڑھتی ہوئی ضروریا ت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ ڈیم بناناہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے جوکہ ہر لحاظ سے بہتر اور توانائی پیدا کرنے کا سستا ترین اور آزمودہ ذریعہ ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کافی اعتراضات ہیں لیکن ملک میں اور بھی متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں پر ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں‘پانی کے ذخائر تعمیر کرنے سے ہم سیلابوں کی تباہی سے بھی بچ سکتے ہیں جن کی وجہ سے حال ہی میں ہمارے ملک کا نہ صرف زرعی ڈھانچہ تباہ و برباد ہوا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں‘ اسلئے ہم ہائیڈرو ذرائع کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے‘ اگر ہمیں مستقبل میں ایسے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپکومحفوظ بنانا ہے تو ہمیں ہائیڈل ذرائع سے توانائی کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اس ذریعہ سے ہم آئندہ دس برسوں میں اپنی قومی توانائی کی کم ازکم پچیس تا تیس فیصد ضرورت پوری کرنے کے اہل ہو سکیں۔

 


 

وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تھر کول منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ضروری وسائل اور فنڈز فراہم کرے اور ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تھر کول منصوبے جلد از جلد مکمل کرے۔ اگرمختلف ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے توتھر کول منصوبے سے حاصل کی جانیوالی بجلی 3.9 روپے فی یونٹ ہے: تھرمل ذرائع سے حاصل کی جانیوالی بجلی 7.9 روپے فی یونٹ اور کرائے کے تھرمل پاور پلانٹس کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی بجلی کی قیمت 11.9 روپے فی یونٹ بنتی ہے اگر حکومت اس منصوبے کیلئے فنڈز اوروسائل فراہم کرنے سے معذور ہے تو اسے چاہئے کہ اسے مکمل کرنے کیلئے عوام کو سرمایہ کاری کی دعوت دے ۔
مہمان سپیکر انجینئر اختر علی نے سیمینار میں مہمانوں کے سوالات کے جوابات بھی تفصیل کے ساتھ دئے گو کہ یہ ایک بہت ہی جامع موضوع تھا اخترعلی نے کوشش کی کہ وہ وقت کی کمی کے باوجود اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔


مہمان خصوصی صفدر حیات نے اپنے خطاب میں سپیکر اختر علی کی اس کوشش کو سراہا کہ انہوں نے ایک بہت ہی اہم موضوع پرمعلوماتی گفتگو پیش کی ہے ۔


انجینئر جلیل حسن نے مہمان خصوصی، مہمان اسپیکر اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بحثیت مسلمان ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کے حصول کیلئے مسلسل کوشش کرتے رہیں، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آپ بحثیت اس بات کی پوری کوشش کریں کہ لوگوں کو علم دیں اور سکھائیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

پروگرام کے اختتام پر مہمان سپیکر انجینئر اختر علی کو مہمان خصوصی صفدر حیات نے انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان برائے سعودی عرب کی طرف سے اعزازی شیلڈ پیش کی، اس طرح یہ پروگرام ایک پرلطف عشائیہ پر اختتام پذیر ہوا۔