Issue# 204

ریاضی۔ حساب

موسم

  شاھین کی ڈائری

ریاضی۔ حساب

Email: shaheenji4@gmail.com

شاہین جاوید۔۔۔ ریاض

ھماری پوری زندگی میں ریاضی(حساب )ایک خاص اہمیت رکھتا ہےبلکہ اگر یوں کہوں تو ہماری زندگی حساب پر ہی مشتمل ہے۔ گنتی کی بدولت ہمیں کم اور زیادہ کے فرق کا پتا چلا۔ دن، ماہ ، سال اور صدیوں کا پتا چلا۔ اشکال کی بدولت ہمیں روپیہ چکور ہوتا ہے یا مستعتیل، اس کی معلومات ملی۔ ضرب کی بدولت ہمیں دو کو چار میں تبدیل کرنا آیا۔ سب سے بڑھ کر ہمیں لوگوں اورخود کی جائیداد اور روپیہ پیسا میں برابری کرنا ْْ برابرْ کی بدولت آیا۔۔انسان بھی زمانے کےساتھ ساتھ اتنا عقلمند ہو گیا کہ اپنے فائدہ کی جانب ہی دھیان دینا اس کی لئے نیک عمل بنتا گیا۔ پر اگر حساب نہ ہوتا تو ہم تو یونہی بے حساب رہ جاتے۔نہ ہمارے پاس گنتی ہوتی اور نہ اعدادوشمار ہوتے۔نہ ہمیں دنیاوی چیزوں کی تعداد بڑھانے کا شوق ہوتا۔نہ ہمیں اس بات کا احساس ہوتا کہ دولت کم نہیں بلکہ زیادہ ہونی چاہیے ۔ نہ ہم گھروں کے احاطے کم نہیں بلکہ زیادہ بنانے کی تگ و دو میں ہوتے۔ سب سے بڑھ کر ہمارے حکمران دولت بنانے کے چکر میں عوام کو نہ نچوڑتے ۔ نہ انہیں دو دونی چار اور چار دونی آ ٹھ کے فارمولے پر عمل درآمد کا بے انتہا شوق ہوتا۔ اور نہ بیچاری عوام یوں مفلسی کی آگ میں جھلستی۔ اس اعدادوشمار نے ہمیں دولت کے ڈھیڑ تو گننے بتا دئیے پرصد افسوس کہ ہمیں اپنے اعمال گننے نہ آئے۔اور ہم اچھے یا بڑے اعمال میں کم یا زیادہ ہونے کے احساس کو ہی فراموش کر گئے۔ افسوس کہ ہم نے رب کی نعمت کواستعمال تو کیا پر درست نہیں غلط باتوں کے لیے۔

 
 

 

-------------------------------------------------------

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


موسم


آج افق کی سنہری چادر پر کالے اور گھنے بادلوں کا جھرمٹ برسات کی آمد کا نوٹیفیکیشن جاری کرتا اپنی گرج چمک دیکھاتا رہا اور پھر برس پڑا۔اور یوں ہوا میں پانی جل تھل کرنے لگا۔ بچے تو بچے ، بڑوں کے دل بھی شاداب ہو گئے۔یوں موسم کی نرمی زندگی کے شب و روز کے تلخ تاثرات کوچہرے سے دور کرکے مسکراہٹ چہروں پر سجا گئی۔ْْْ اور ایک سوچ میرے دل ط دماغ پہ چھا گئی۔۔ْ کہ موسم برسات کتنا دلکش اور لطیف ہوتا ہے ۔ اس کا اثر انسانوں کے ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن کو بھی پرسکون کر دیتا ہے۔اس میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ دل کی گہرائیوں میں چھپی سستی اور کاہلی کو جوش و جذبہ میں بدل کے رکھ دے۔موسم برسات کی مدھم مدھم اور دھیمی دھیمی مہک بشر انسانی کو جھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اور وہ جھوم اٹھتا ہے۔ جب میئی برستا ہے تو بارش کے قطرےہر طرف جل تھل کر دیتے ہیں۔ بارش دھول مٹی کو دھو ڈالٹی ہے اور سارے کا سارا گرد وغبار پانی میں بہ جاتا ہے۔ پس پھر ہر طرف چمک اور اجلا پن یقیینی ہوتا ہے۔،،تب ہی میری نظر درختوں کے پتوں پر پڑی جو ٹہنیوں پر چمکتے ہوئے جھولے جا رہے تھے ۔ عمارتیں اور سڑکیں دھول اور گردوغبار سے صاف ہو چکی تھیں۔ فضائوں میں مہکی مہکی بھینی خوشبو دل و دماغ کو پرسرور کئے ہوئے تھی۔گویا بارش کا پانی ایسا آب شفا تھا جو سب کچھ صاف ستھرا کر گیا۔ جو دھول دھبوں کومٹا گیا۔جو انسانی زندگیوں کو نقصان پہنچھنے والے تمام کے تمام جراثیم کو بہا کر لے گیا تھا۔ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر بارش کا یہ پانی انسانوں کی دلوں میں جمی حسد ، نفرت، ناراضگی ، بغض ،کینہ اورفرقہ واریت کی دھول کو بھی دھو ڈالتا۔ دل انسانیت کے جذبے سے منور ہو جاتے۔ نہ کوئی گلہ شکوہ رہتا ، نہ کوئی دشمنی۔ مساوات اور بھائی چارے کا بول بالا ہوتا۔نہ کوئی ناراضگی ہوتی اور نہ ہی کوئی غلط فہمی۔۔سب کے دل اجلے اور شفاف ہوتے۔اور یوں سب ہنستے مسکراتے آباد ہوتے۔
 

-------------------------------------------------------