------------------------------------------------------- موسم آج افق کی سنہری چادر پر کالے اور گھنے بادلوں کا جھرمٹ برسات کی آمد کا نوٹیفیکیشن جاری کرتا اپنی گرج چمک دیکھاتا رہا اور پھر برس پڑا۔اور یوں ہوا میں پانی جل تھل کرنے لگا۔ بچے تو بچے ، بڑوں کے دل بھی شاداب ہو گئے۔یوں موسم کی نرمی زندگی کے شب و روز کے تلخ تاثرات کوچہرے سے دور کرکے مسکراہٹ چہروں پر سجا گئی۔ْْْ اور ایک سوچ میرے دل ط دماغ پہ چھا گئی۔۔ْ کہ موسم برسات کتنا دلکش اور لطیف ہوتا ہے ۔ اس کا اثر انسانوں کے ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن کو بھی پرسکون کر دیتا ہے۔اس میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ دل کی گہرائیوں میں چھپی سستی اور کاہلی کو جوش و جذبہ میں بدل کے رکھ دے۔موسم برسات کی مدھم مدھم اور دھیمی دھیمی مہک بشر انسانی کو جھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اور وہ جھوم اٹھتا ہے۔ جب میئی برستا ہے تو بارش کے قطرےہر طرف جل تھل کر دیتے ہیں۔ بارش دھول مٹی کو دھو ڈالٹی ہے اور سارے کا سارا گرد وغبار پانی میں بہ جاتا ہے۔ پس پھر ہر طرف چمک اور اجلا پن یقیینی ہوتا ہے۔،،تب ہی میری نظر درختوں کے پتوں پر پڑی جو ٹہنیوں پر چمکتے ہوئے جھولے جا رہے تھے ۔ عمارتیں اور سڑکیں دھول اور گردوغبار سے صاف ہو چکی تھیں۔ فضائوں میں مہکی مہکی بھینی خوشبو دل و دماغ کو پرسرور کئے ہوئے تھی۔گویا بارش کا پانی ایسا آب شفا تھا جو سب کچھ صاف ستھرا کر گیا۔ جو دھول دھبوں کومٹا گیا۔جو انسانی زندگیوں کو نقصان پہنچھنے والے تمام کے تمام جراثیم کو بہا کر لے گیا تھا۔ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر بارش کا یہ پانی انسانوں کی دلوں میں جمی حسد ، نفرت، ناراضگی ، بغض ،کینہ اورفرقہ واریت کی دھول کو بھی دھو ڈالتا۔ دل انسانیت کے جذبے سے منور ہو جاتے۔ نہ کوئی گلہ شکوہ رہتا ، نہ کوئی دشمنی۔ مساوات اور بھائی چارے کا بول بالا ہوتا۔نہ کوئی ناراضگی ہوتی اور نہ ہی کوئی غلط فہمی۔۔سب کے دل اجلے اور شفاف ہوتے۔اور یوں سب ہنستے مسکراتے آباد ہوتے۔ ------------------------------------------------------- |