میں حرف بہ حرف حق کہاں بولتا رہا میں جھوٹ کا زہر سچ میں گھولتا رہا واضح تھی میزان میں انصاف کی ہدایت لیکن میں اوروں کے لئے کم تولتا رہا کبھی حصارِ حرص تھا کبھی تھی مصلحت مابیں حق و باطل بس میں ڈولتا رہا کس سادگی سے ا پنی فلاح کی راہ میں خود ہی گرہ لگائی خود ہی کھولتا رہا کیا خوُب عدالت تھی کیامنصف کیا وکیل منہ بولتا ثبوت میرا منہ بولتا رہا پر کاٹ کر صیاد اسُے کھلا چھوڑتا رہا پھر ساری عمر اڑُنے کو وہ پرَ تولتا رہا |