Issue# 204

1st Feb 2011

غزل

شاعر: محسن علوی جدہ سعودی عرب  


مصرع طرح: پردہ خامشی میں کیا کچھ تھا ۔ ناصر کاظمی برائے


جانے خود آگہی میں کیا کچھ تھا
ہائے اس بیخودی میں کیا کچھ تھا

آدمیت ہی بھول بیٹھا ہے
ورنہ اس آدمی میں کیا کچھ تھا

اب تو ملنا نہیں گوارا ہمیں
ورنہ اس دوستی میں کیا کچھ تھ


خود ہی پلکوں پہ آگئے آنسو
لمحہء بے بسی میں کیا کچھ تھا
 

اس کے انداز کتنے سادہ تھے
ہائے اس سادگی میں کیا کچھ تھا

 

 

 


جانے کیوں یہ صنم تراش لئے
رب تری بندگی میں کیا کچھ تھا

دل ہی اپنی چبھن کو بھول گیا
پھول کی تازگی میں کیا کچھ تھا

ایک چہرہ کہ بھولتا ہی نہیں
اس کی زندہ دلی میں کیا کچھ تھا

چھوٹ جانے پہ اب ہوا احساس
ساتھ میں ہمرہی میں کیا کچھ تھا

راز کیوں کوئی کھولتا ہی نہیں
پردہ خامشی میں کیا کچھ تھا

 

ساری نظریں ٹہر گئیں اس پر
جانے اس اجنبی میں کیا کچھ تھا

اس کا چہرہ نہ پڑھ سکا کوئی
اس کی تابندگی میں کیا کچھ تھا

غم سے کرلی ہے دوستی محسن
لیکن اپنی خوشی میں کیا کچھ تھا