Issue# 204

1st Feb 2011

دل تو بس عادتاً دھڑکتاہے

تبسم محسن علوی جدہ  

شمع کی رقص کرتی لو کو دیکھتے ہوئے اکثر میں سوچتی کہ بیچاری شمع ساری رات اپنے کو جلا کر فضاکواجالا بخشتی رہتی ہے ۔۔۔پتہ نہیں میری کچھ نفسیاتی کمزوری تھی یا ایک عجیب سا احساس کہ میں جب بھی شمع جلتی دیکھتی میرے اند رہی ایک دکھ کا احساس جاگ اٹھتا ۔۔۔ شاید اس لئے کہ میرا نام بھی شمع ہے ۔۔۔ اور میں کسی بھی شمع کوجلتے اور ایسی قر بانی دیتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھ سکتی ۔۔جو اپنے ارد گرد کے ما حول کو اجالا بخشے اور خو د جل جل کر ختم ہو جائے ۔۔۔۔آپ میرے بارے میں سوچنے لگے ہو نگئے کہ میں شایدکوئی فلا سفی ، خبطی ٹائپ کی ہوں ارے نہیں میں تو بہت ہنسنے ہنسانے والی پر بہار شخصیت ہوں میرے ہی دم سے تو میرے خاندان میں میرے دوستوں احباب کی محفلیں سجتی تھیں اپنے کالج کی سب سے شوخ و چنچل حسینہ ۔۔رنگوں ، روشنیوں ، خو شبو ؤں کی دیوانی ۔زندگی سے محبت کرنے والی شمع کو زندگی نے بہت کچھ دیا پروانہ کی طرح بے پناہ محبت کرنے والا جیون ساتھی تین خو برو ذہین ترین بیٹے خوشحال زندگی کی تمام نعمتیں آرزوؤں بھری رحمتیں کیا کچھ میرے پاس نہیں ہے اگر میرے خاندان والے میرے دوست احباب مجھے دنیا کے خوش قسمت لوگوں میں شمار کرتے تو یہ بلکل غلط نہ تھا میں خود اپنے کو دنیا کی سب سے خوش قسمت ترین عورت سمجھتی تھی ۔۔۔ اب آپ یقیناًمیرے یہ کہنے پر چو نکے ہو ں گے ۔۔۔۔۔جی ہا ں میں اب سے ایک سال آٹھ ماہ تین دن چار گھنٹے پندرہ منٹ پہلے تک میں ضرور دنیاکی سب سے خوش قسمت ترین عورت تھی مگر جیسے چھناکے سے اچانک آپکا سنہرا سپنا ٹو ٹتا ہے بالکل اسی طرح میری

حقیقی زندگی میں میرا دل بھی چھنا کے سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا ۔۔۔۔۔میری تمام فر یادیں میری تمام دعائیں میری تقدیر کے اشکوں کے سیلاب میں بہہ گئیں ۔۔ اس وقت مجھے احساس ہواکہ دکھ کسے کہتے ہیں غم و الم کس طرح سہا جاتاہے ۔۔۔ میری خو شگواروخوشحال ترین زندگی کو برباد کرنے والامجھے غم و الم کی تصویر بنانے والا مجھے شادی کے ستائیس سال یہی گیت سناتا رہا کہ زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاھوں گا۔۔۔میں جو اس کی جان تھی ۔جس کی ہر صبح میرے چہرے کے دیدار سے ہوتی جس کی ہر رات میری بانہوں میں گزرتی۔جو مجھے حسن کی مور تی پکارتا ۔جومیری کھنکتی ہو ئی آواز کواپنی زندگی کہتا جومیری خوشبو کو اپنی سانسوں میں بسائے رکھتا جس کا میرے بغیر لمحہ بھر جینا قیامت بن جاتاآسمان سے چاند تارے توڑ کرلا نے و ا لا میرا شریک حیات آسمان سے چاند تارے توڑ کر کیا لاتااس نے تو زمین پرہی میرے دامن کو غموں کی سو غات سے بھر ڈالا ۔۔زندگی اپنی بھرپور حسن رعنائیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی میرے دو ذہین ترین بیٹے علی ، اسامہ ، اے لیول کرنے کے بعد امریکہ میں بہترین اضافی ڈگریوں سے شاندار مستقبل کے سنہرے خوابوں میں مگن تیسرا بیٹا سعدی اے لیول کی تیاریوں میں مصروف میں اور جمیل بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت کے سحر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اچانک جمیل کی ایک دور پرے کی خا لہ خالو اور ان کی صا حبزا دی کی آمد نے ہمارے ہنستے بستے آشیانے کو جلا کر خاکستر بنا دیا میں اس لمحہ کو کوس رہی تھی کہ جب جمیل نے ان کو سعدی کے امتحانوں کی وجہ سے گھر میں لانے کو منع کیا تھا تو پھر کیوں آخر میں سسرال کے رشتہ داروں کی محبت میں گرفتار ان کو اپنے گھر لے کر آگئی تھی ۔ پسماندہ سے علاقے کے چھوٹے سے گھر میں رہنے والے ان لوگوں کے لئے میرا سکون و چین سے بھر آشیانہ کسی محل سے کم نہیں لگتا خالہ کی بیٹی نوشینہ کو تو میرا گھر اپنے خوابوں کا محل لگتا تھا جس کی تعبیر کے لئے اس کی عمر کے حساب سے میرے بڑے بیٹے تو مو جود نہیں مگر اسکی عمر سے کئی گنا بڑا میر ا شوہر تو موجودتھا فارٹی اس ناٹی تو سناتھا مگر میرے شوہر تریپن سال کی عمر میں اس چوبیس سال کی لڑکی کے اداؤں کا شکار ہو گئے یقین کریں میں اپنے شوہر کی نس نس سے واقف تھی ان کی وفاداری ان کی شرافت کے لئے حلف اٹھا سکتی تھی وہ تو اپنی جوانی میں نظر پھینک نظر باز قسم کے لڑکے نہ تھے مجھے اپنے سے کئی زیادہ اپنے شوہر پر اعتماد و بھروسہ تھا انھوں نے تو کبھی میری کسی دوست یا سہیلی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا یہی وجہ تھی کہ میں نے آنکھ بھر کر ان پر بھروسہ رکھا سعدی کے امتحانوں کی وجہ سے ان لوگوں کو خوب جدہ کی سیر کرانے روانہ کر دیتی ۔۔رات کو خود جلدی سعدی کے ساتھ سو جاتی تا کہ امتحانوں کی تیاری کے لئے اس کو سویر ے اٹھا سکوں میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آشیانے کو خاک کررہی ہوں پندرہ ددن میں نو شینہ نے اپنی کافرانہ اداؤں اپنے حسن کے جلوؤں سے میری ستائیس سال کی محبت و ریاضت کو شکست دے دی ۔میں ایک رات میں ان دونوں کو غلط اندازمیں بیٹھا دیکھ کر بے اختیار چیخ پڑی ۔۔۔ جمیل ۔۔ آپ۔۔ میں نے ایک زور دار چانٹا مارنے کے لئے نوشینہ کی طرف ہاتھ اٹھایا۔۔کہ بدذات تم اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ۔۔۔ مگر میرا ہاتھ تو جمیل نے مضبوطی سے پکڑ لیا اور نوشینہ کی آوازمیری وجود پر ہنٹر بر سانے لگی ۔۔۔۔ آپ کون ہوتی ہیں ۔۔۔ مجھے اپنے گھر سے نکالنے والیں بہت عیش کر لئے آپ نے ۔۔۔ اب یہ گھر میرا ہے ۔۔۔ جمیل میرا شو ہر ہے۔۔۔۔ اگر اب آپ مجھ پر چیخیں میں آپ کو اپنے گھر سے نکال دونگی۔۔۔۔ میرے سر پر تو بم بلاسٹ ہو چکا تھا اور اب قیامت کی گھڑی بھی آن پہنچی ۔۔۔ جب جمیل نے اپنے مخصو ص دھیمے دھیمے لہجے مجھے بتایا کہ آج صبح ہی میں نے نوشینہ سے نکاح کر لیا ہے ۔۔۔۔روحی۔۔۔ میں ایک سی زندگی گزارتے گزارتے بور ہو چکا تھا نو شینہ نے تو میرے اند ر جینے کی امنگیں پیدا کر دی تھیں ۔۔ اور پھر میں تمھارے حقوق بھی ادا کرتا رہوں گا اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرونگا۔ میں جانتا ہوں کہ تم نے ہر برے اچھے وقت میں میرا ساتھ دیا ہے ۔۔ میری ہر طرح سے خدمت کی ہے ۔۔ اب تمھاری عمر کا تقاضہ ہے۔۔ کہ تم اب آرام کرو ۔اب میری خدمت نو شینہ کرے گی ۔ دوسری شادی میری خوشی اور میرا شر عی حق تھا۔ اور جب خالہ ،خالو ،نو شینہ کو کوئی اعتراض نہ تھا تو پھر۔۔۔ اور کسی سے میں!!!!۔۔۔مجھے جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے۔۔ اور کسی۔۔۔ میں ۔۔۔ میرا مقام ۔۔کہاں۔۔آتاتھا ۔۔۔لیکن میرے الفاظ میرے آنسو ؤں کا طوفان۔ ۔۔ میری روح کے اندر گرتے جارہے تھے میرا نازک اندام دل کہاں شدت غم و دکھوں کی اذیت سہہ سکتا تھا وہ تو اسی وقت دھڑکنا چھوڑنے والا تھا مگر میرے بچوں کی خوش بختی نے مجھے زندہ رکھا میں نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سے کئی دن اسپتال میں پڑی رہی ڈاکڑوں کے علاج اور وقت کی دوڑ نے مجھے جب ہوش کی منزل پر چھوڑا تومجھے اپنا سب سے ننھا منا سعدی عقل و شعور کی سن رسیدہ مقام پر کھڑامجھے سمجھا رہاتھا ۔۔مما ۔۔ میری پیاری مما۔۔ اپنے آپ کو سنبھالیے ۔۔ جو ہو رہا۔۔۔اسے اپنی قسمت کی لکیر سمجھ لیجئے ۔۔۔ہونے کو بھلا کون ٹل سکتا ہے ۔ پیاری مما پا پامجھ سے کہتے ہیں ۔۔ کہ اپنی مما کو سمجھاؤں ۔۔اگر وہ نوشینہ آنٹی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گی تو انھیں واپس پاکستان جانا پڑے گا۔۔۔ مما میں آپ کو اور پاپا کے رشتے کو ٹو ٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہوں ۔۔۔ مما آپ خود سوچئے اگر آپ پا پا کو چھو ڑنے کا فیصلہ کریں گی تو اس میں ان سے زیادہ آپ کا نقصان ہو گا ۔۔ آپ کے پاس نہ پیسہ نہ گھر بار ہوگا نہ ہی معاشرے میں کو ئی نام و اسٹیٹس ۔۔ پھر ماما آپکی وجہ سے تو پاپا ہم لوگوں سے جڑے رہیں گئے ۔علی بھائی ، اسامہ بھیا اور میرے تعلیمی اخر جات پورے کریں گے۔۔ ورنہ مما میری پیاری مما ہم سب کا کیا ہو گا ۔۔۔وہ دھیرے دھیرے میرے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے مجھے سمجھا رہا تھا اسکی آنکھوں سے برستے میرے غم کے آنسو میرے دل پر گر رہے تھے ۔۔۔اور اب مجھے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ شمع کس طرح ساری رات جل کر ماحول کو روشنی دیتی ہے ۔۔۔ اب میں خودشمع کی مانند جل کر اپنے بیٹوں کو روشن مستقبل دے رہی ہوں بس اب اتنا ضرور ہے کہ۔۔

 زندگی کب کی ہو گئی خا موش ۔۔۔۔

 اب دل تو بس عادتاً دھڑکتا ہے۔۔۔۔