Issue# 205

15th Feb 2011

ہم نے کیا نہیں دیکھا ۔۔۔ایک کہانی میری زبانی

Email: pyj.forum@gmail.com

تحریر : مدثر رفیق چوہدری۔۔۔ ریاض

چند سال قبل کی بات ہے جب ہم سکول کے بینچوں میں بیٹھے اپنے مستقبل کی تعمیر میں لگے دن رات محنت کر رہے تھے۔گوء کہ جسمانی طور پر اتنے فربہ نہ تھے مگر پھر بھی ملکی حالات پر مکمل نظر رکھتے اور جب بھی وطن عزیز کی سلامتی پر کوئی آنچ آتی دکھائی دیتی ہم بھی اپنے حلقہ احباب کو اکٹھا کر کے اس سر زمین پاک پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کی قسمیں کھاتے۔اسی دور میں پاکستانی جانبازوں نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے دشمنوں کو یہ باور کروایا کہ اس پاک وطن کی جانب بری نظرسے دیکھنے والا اپنا انجام پہلے سوچ کر رکھے ہمارا سر فخر سے اور بلند ہو گیا تھا ۔مسلمان ہونے پر تو ہمیں پہلے ہی فخر تھا اوپر سے پہلی مسلمان ایٹمی ریاست کی گود سے جنم لینے کے احساس نے ہم میں جذبہ حب الوطنی کو اور تقویت دی اور ہم بھی خواب دیکھنے لگے کہ اب ہمارا ملک دن رات ترقیوں کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔مگر پھر ہم نے اقبال کے اس شعر کو بھی سچ ہوتے ہوئے دیکھا کہ
"جدا ہو دین جو سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"
ہم نے دیکھا جب اسی ارض پاک پر "ماڈرن نظریات اور ماڈرن مسلم"  کے نام پر ہمارے اپنے ہی لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور ہماری ثقافت کو ہم سے دور کرنے کے بے تہاشا ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ہمارا اس قوم سے رشتہ ہے کہ جس کی ایک بیٹی کی پکار پر محمد بن قاسم جیسے بہنوں،بیٹیوں کی عزت کے رکھوالے سلطنتوں کی سلطنتیں ہلا کر رکھ دیں جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہم نے اپنے وطن کی عزت عافیہ کو غیر مسلموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ہم نبی کریم  کا وہ فرمان نہیں بھولے کہ’’ مسلمان ایک عمارت کی اینٹوں کی طرح ہیں جو سب ایک دوسرے کو جوڑ کے رکھتی ہیں ؛
ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہمارے ہی رکھوالوں نے ہماری ہی عمارت کو گرانے میں یہودی لابی کا ساتھ دیا۔ہم نے اس یہودی کا بیان بھی پڑھا کہ ’’ ہماری قیمت ایک بوتل شراب سے لے کر امریکہ کے وزٹ تک ہے‘‘اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح ایک مجاہد اسلام کی تعریف دہشتگردی میں تبدیل ہوتی ہے،ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی دھرتی کو لہو لہان دیکھا،اپنوں کے ہاتھوں ہی اپنوں کو اجڑتے دیکھا۔ہم نے زخموں سے چور ان لوگوں کو بھی دیکھا جنہوں نے اپنی اولادوں کو اس لاڈ ،پیارسے ان کے ناز نخرے برداشت کر کے ان کی خاطر اپنی جوانی برباد کیں تھیں کہ یہ ہمارا بڑھاپے میں سہارا بنیں گے مگر جب سہارا دینے کا وقت آیا تو وہ اس بات سے بھی انجان ہیں کہ ان کی اولادیں ہیں کہاں ؟ وہ اس سوچ میں ڈوبے ہیں کہ ان کے لخت جگروں کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔
قارئین ! ہم نے انسانی حقوق کی باتیں اور بلند و بالا دعوے کرنے والی ان ہزاروں تنظیموں کو تودیکھا ہے جو چنگھاڑ ،چنگھاڑ کر انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کے دعوے کرتی ہیں مگر کیا ان سے کسی نے یہ پوچھا کہ انسانوں کی فہرست میں مسلمانوں کا نام بھی شامل ہے یا نہیں؟ ہمارے ملک میں کسی غیر مسلم کی طرف انگلی اٹھائی جائے تو خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہنے والا امریکہ فوراََ حرکت میں آجاتا ہے۔مگر ان لاکھوں بے گناہوں کے خون کا حساب کون دے گا جو وہ دہشتگردی کے نام پروہ خود بہا رہا ہے۔ہم نے جو کچھ دیکھا اس سے ہمیں ایک بات کا یقین تو ہو گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی لسٹ میں مسلمانوں کا نام نہیں ہے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ بہت جلد ان حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کہیں سے ’’مسلم رائٹس ‘‘ کی آواز بھی بلند ہو گی۔مجھے اس وقت کا بے صبری سے انتظار ہے ۔بے شک وقت سب سے بڑا منصف ہے۔