Issue# 205

15 Feb 2011

شاعر انقلاب  فیض احمد فیض کے صد سالہ یوم پیدائش پر انکا منتخب کلام

 


فلسطینی بچے کے لیے لوری مت رو بچے

رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیری باجی کا
ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندر ما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

 فیض احمد فیض (بیروت)


ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیےہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف زیلغارِ اعداء
ہء سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف زیورشِ جیش قضا
صف بستہ پہں ارواح الشہداء
ڈر کاہے کا؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زہق الباطل
فرمودہ ربِ اکبر
ہے جنت اپنے پائوں تلے
اور سایہ رحمت سر پہ پے
پھر کیا ڈر ہے؟
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بلآخر اک دن جیتیں گے

 فیض احمد فیض

(بیروت۔ 15 جون 1983ء)



وا میرے وطنوا میرے وطن! وا میرے وطن! وا میرے وطن!
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تیری راہوں سے
مرا آخری کرتا چاک ہوا
ترے شہر میں جو سلوایا تھا
اب تیری جھلک
بس اڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جُھریاں میرے ماتھے پر
یا میرا ٹوٹا ہوا دل ہے
وا میرے وطن! وا میرے وطن! وا میرے وطن!
 

 فیض احمد فیض


مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگمیں نے سمجھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا عالم میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، فقط میں نے چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ ؤ بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلاۓ ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن، مگر کیا کیجے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

فیض احمد فیض


بہار آئی تو جیسے اک بار۔۔۔۔بہار آئی تو جیسے اک بار
لوٹ آئے ہیں پھر ادم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جومٹ کر ہر با ر پھر جیئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جوتیرے عُشاق کا لہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خُمارِ آغوشِ مہوِشاں بھی
غُبارِ خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے
سوال سارے، جواب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
ھمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئ مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنے مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھیںچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
ترے چشمِ عالم نواز کی خیر
دل میں کوئئ گلہ نہیں باقی
ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی
 

 
یہ گلیوں کے آوارہ بےکار کُتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بِگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

۔۔۔ فیض احمد فیض ۔۔۔

 
 
گر مجھے اس کا یقین ھو مرے ھمدم ، مرے دوست
گر مجھے اس کا یقین ھو کہ ِترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ، ترے سینے کی جلن
میری دل جوئی ، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرفِ تسلّی وہ دوا ھو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجڑا ھوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ھو جائے
گر مجھے اس کا یقین ھو مرے ھمدم ، مرے دوست
روز و شب ، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رھوں
میں تجھے گیت سناتا رھوں ھلکے ، شیریں
آبشاروں کے بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے ، مہتاب کے ، سیّاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ھاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ھیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ھوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ھیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفّاف بلور
یک بیک بادہِ احمر سے دہک جاتا ھے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ھے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ھے
یونہی گاتا رھوں ، گاتا رھوں تیری خاطر
گیت ُبنتا رھوں، بیٹھا رھوں تیری خاطر
پر مرے گیت ترے دکھ کا ُمداوا ھی نہیں
نغمہ جرّاح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں ، مرھم ِ آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور یہ سفّاک مسیحا مرے قضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ھاں مگر تیرے سوا ، تیرے سوا ، تیرے سوا

فیض احمد فیض


دلِ‌ من مسافرِ من
ہوا پھر سے حکم صادر

دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا

کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا

ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا

سر کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا

کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا

تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے

ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا

ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا !!!

۔۔۔ فیض احمد فیض ۔۔۔

یادِ غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں
یادِ غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں
جب چاہا کر لیا ہے کنج قفس بہاراں

آنکھوں میں درد مندی، ہونٹوں پہ عذر خواہی
جانانہ وار آئی شامِ فراقِ یاراں
...
ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آساں نہ تھی کچھ ایسی راہِ وفا شعاراں

مجرم ہو خواہ کوئی، رہتا ہے ناصحوں کا
روئے سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں

ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیمِ زہد کر لے
سوئے حرم چلا ہے انبوہِ بادہ خواراں

شاید قریب پہنچی صبحِِ وصالِ ہمدم
موجِِ صبا لیے ہے خوشبوئے خوش کناراں

ہے اپنی کشتِ ویراں، سرسبز اس یقیں سے
آئیں گے اس طرف بھی اک روز ابرو باراں

آئے گی فیض اک دن بادِ بہار لے کر
تسلیمِ مے فروشاں، پیغامِ مے گساراں
۔۔ فیض احمد فیض

ایک دکنی غزل

کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کی انہ نظارے گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتا تھی گلی جب یار ہممارا گزرے تھا

تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پو چھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا

اب کہ خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسم گل ہر پھیرے مٰن آ آ کے دوبارہ گزرے تھا

تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا

اب تو ہاتھ سجھائی نی دیوے، لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا

فیض احمد فیض
 
غزل

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے

تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم پہ دل نے وارے تھے

میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے

عمرِ جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے

فیض احمد فیض
 
 
غزل

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے

ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے

ہے وہی عارضِ لیلٰی، وہی شیریںکادہن
نگہِ شوق پل بھر کو جہاں ٹھہری ہے

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھری ہے

بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے

دستِ صیاد بھی عاجز ہے، کفِ گلچیں بی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے

آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

ہم نے جو طرزِ فغان کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

فیض احمد فیض
 
 
اے حبیبِ عنبر دست!

کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا ہے آج عجب دل نواز بندوبست
مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا ہے گرمیء خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں قریب سے ، گیسو بدوش ، غنچہ بدست

لیے ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن
تو لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست
ہمیشہ سبز رہے گی وہ شاخِ مہر و وفا
کہ جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح و شکست

یہ شعرِ حافظِ شیراز ، اے صبا! کہنا
ملے جو تجھ سے کہیں وہ حبیبِ عنبر دست
"خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است"

(فیض احمد فیض)
(سنٹرل جیل حیدر آباد ٨٢۔٢٩ اپریل ٥٣ء)
 
 
سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں ۔ فیض احمد فیض
غزل

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

شمعِ نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں

اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہء قاتل سے آئے ہیں

بادِ خزاں کا شکر کرو، فیض جس کے ہاتھ
نامے کسی بہار شمائل کے آئے ہیں

(فیض احمد فیض)
 
 
 
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی ۔ فیض احمد فیض
غزل

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی

تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہُوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی

تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا، جس نے آہ نہ کی

تھے شبِ ہجر، کام اور بہت
ہم نے فکرِ دلِ تباہ نہ کی

کون قاتل بچا ہے شہر میں فیض
جس سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی

(فیض احمد فیض)
 
 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
(ایتھل اور جولیس روز برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئ)


تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں*کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں*کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب کھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں*میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کاشکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں*مارے گئے

منٹگمری جیل
15 مئی 53ء
 
خدا وہ وقت نہ لائے۔۔۔۔۔۔ فیض احمد فیض


خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرّتِ پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
ہجومِ یاس سے بیتاب ہو کے رہ جائے
وفورِ درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرورِ حسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پہ جھکے
کہ جنسِ عجزو عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریبِ وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لیے بیقرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے
 
 
دست تہ سنگ آمدہ - فیض احمد فیض
دست تہ سنگ آمدہ

بیزار فضا ، درپے آزار صبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے

ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
اب سیر کے قابل روش آب و ہوا ہے

امڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے

وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی
ہر کاسہء مے زہرِ ہلاہل سے سوا ہے

ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لبِ شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے

اس جذبہء دل نہ سزا ہے نہ جزا ہے
مقصود رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے

احساس غم دل جو غم دل کا صلہ ہے
اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے

ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے

ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے

ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرف تمنا ترے قدموں کی صدا ہے

تعزیرِ سیاست ہے نہ غیروں کی خطا ہے
وہ ظلم جو ہم نے دل وحشی پہ کیا ہے

زندان رہ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے نہ کوئی بند بپا ہے

مجبوری و دعویٰ گرفتاری الفت
دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے

فیض احمد فیض
 
سپاہی کا مرثیہ

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
تمری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
نیلے شال دو شالے لے کر
جن میں ان دکھین اکھین نے
ڈھیر کئے ہیں اتنے موتی
اتنے موتی جن کی جیوتی
دان سے تمرا
جگ جگ لاگا
نام چمکنے
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
گھر گھر بکھرا بھور کا کندن
گھور اندھیرا اپنا آنگن
جانے کب سے راہ تکے ہیں
بالی دلہنیا ، بانکے ویرن
سونا تمرا راج پڑا ہے
دیکھو کتنا کاج پڑا ہے
بیرے براجے راج سنگھاسن
تم ماٹی میں لال
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
ہٹ نہ کرو ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال

اکتوبر 1965ء
 
 
سوچنے دو -فیض احمد فیض
سوچنے دو

( آندرے وز بیسن سکی کے نام)

اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنگ و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پرا
گل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کمال
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو
ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آنکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لئے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

ماسکو
مارچ 1967 ء
فیض احمد فیض
 
موضوع سخن

گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام 
دھل کے نکلے گی ابھی چشمہء مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات


ان کا آنچل ہے ، کہ رخسار ، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں


آج پھر حسنِ دل آرا کی وہی دھج ہو گی
وہی خوبیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگِ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار
صندلی ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر


اپنے افکار کی، اشعار کی دنیا ہے یہی
جان مضموں ہے یہی ، شاہدِ معنی ہے یہی


آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے ؟
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پی کیا گزری ہے؟


ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!
کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے


یہ ہر اک سمت پراسرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چرغ
یہ ہر اک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پر تو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ


یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہئے کہیں ایسے بھی فسوں ہوں گے

اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں


فیض احمد فیض
 
 
 
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
 
 
مرثیہء امام



ر ا ت آ ئی ہے شبیر پہ یلغا ر بلا ہے
ساتھی نہ کو ئی یار نہ غم خو ا ر رہا ہے
مونس ہے تو ا ک د ر د کی گھنگھو ر گھٹا ہے
مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی ، غربت کی ، پریشانی کی شب ہے
یہ خا نہ شبیر کی و یر ا نی کی شب ہے



دشمن کی سپہ خواب میں مد ہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ ادھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آل محمد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بکا اہل حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دیا آخر شب جلتا ہے جیسے



اک گوشے میں ان سوختہ سامانوں کے سالار
ان خاک بسر خانماں ویرانوں کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل فگار
اس شان سے بیٹھے تھے شہ لشکر احرار
مسند تھی نی خلعت تھی نہ خدام کھڑے تھے
ہاں تن پہ جدھر دیکھئیے سو زخم سجے تھے
کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہر تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہد اقرار وفا تھی
ہر جنبش لب منکر دستور جفا تھی



پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا
الحمد قریب آیا غم عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبح شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میان حق و باطل
وہ ظلم میں کامل ہیں تو ہم صبر میں کامل
بازی ہوئی انجام مبارک ہو عزیزو
باطل ہوا ناکام مبارک ہو عزیزو



پھر صبح کی لو آئی رخپاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتل خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کیلیے آئینہ رو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا



پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صف اعداء
تھا سامنے اک بندہ حق یکہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا ادھر خون کا پیاسا
یہ رعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں جو تاخیر لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امام الشہداء نے



فرمایا کہ کیوں در پئے آزار ہو لوگو
حق والوں سے کیوں برسر پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرف دار ہو لوگو
کیوں آپ کے آقاؤں میں اور ہم میں ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے
سطوت نہ حکومت نہ حشم ہاہئیے ہم کو



اورنگ نہ افسر نہ علم چاہئے ہم کو
زر چاہئیے نہ نے مال و درم چاہئیے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہئیے ہم کو
سردار کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اک حرف یقیں دولت ایماں ہمیں بس ہے
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے نیکی کے مروت کے طرف دار
ظالم کے مخالف ہیں تو بیکس کے مدد گار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے



تاحشر زمانہ تمہیں مکار کہے گا
تم عہد شکن ہو تمہیں غدار کہے گا
جو صاحب دل ہے ، ہمیں ابرار کہے گا
جو بندہ حر ہے ہمیں احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں بہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سر افراز رہے گا



کر ختم سخن محو دعا ہو گئے شبیر
پھر نعرہ زناں محو و غا ہو گئے شبیر
قربان رہ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں تھا کہرام جدا ہو گئے شبیر
مر کب تن پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اس خاک تلے جنت فردوس کا در تھا