جمہوریت ہجر

  شاھین کی ڈائری

جمہوریت

Email: shaheenji4@gmail.com

شاہین جاوید۔۔۔ ریاض

" آج تیونس کی طرح مصرمیں بھی ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ایسا لگتا ہے کہ یہ احتجاج ایک انقلاب لے کر آئے گا"۔ـ یہ وہ الفاظ تھے جو نیوذ چینلز پر مختلف مختلف انداز میں دہرائے جا رہے تھے۔ جس کا پس منظر مقصد صرف اور صرف جمہوریت کے نظام کو رائج کرنا ہے۔ کیونکہ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کا نظام تمام حکومتوں میں سے بہتر ہے۔ جب بھی حاکم کے احکامات محکوم کی بہتری کی بجائے اس کی رسوائی، مسائل اور مفلسی کا سبب بنیں۔ توایک وقت ایسا بھی آتا ہی جب مظلوم اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ اسی لئے احتجاج کرنا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔پر اچانک انجانی فکر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ کہ اگر جمہوریت ایسے تحفے دیتی ہے جیسے کہ ہمارے جمہوری نظام نے ہماری قوم و ملک کو دیئے ہیں تو ان کا کیا ہو گا؟ خدا نہ کرے کہ مصر کی جمہوریت ہمارے ملک جیسی ہو۔ جہاں جمہوریت تو ہے پر نام نہاد ۔ جہاں خلیفہ تو بہت بنے پر خلافت کسی کو نہ آئی۔نت نئے ترقیاتی منصوبے قوم کے مفاد کے لئے کم حکمرانوں کے سہولتوں کی لئے زیادہ ترتیب دئے گئے ۔اب تو جیسے عوام کے لئے زندگی گزارنا عذاب بن گیا ہو۔جہاں غریب ، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور امیر ، امیر سے امیر تر۔۔آج پاکستان کی 80 فیصد آبادی نارمل زندگی سے محروم تگ و دو کر کے جی رہے ہیں۔ اگر جمہوریت ایسے تحفوں سے عوام کو نوازتی ہے تو پھر شاید بادشاہیت یا عامریت بہتر ہو۔ کم از کم اس کی بدولت چند لوگ ہی اپنی خزانہ بھرتے ہیں۔ سب کے سب اپنا خزانہ نہیں بھرتے۔ اور نہ ہی ملک کو بیچتے ہیں۔ ان تمام اعلی عہدےدار کی طرح جو جمہوریت کی بدولت مہنگائی کنٹرول میں ہے ، کے نعرے لگاتے پھڑتیں ہیں۔اب تو بس دل سے یہی دعا نکلتی ہے۔کہ اﷲ ہمیں نیک ، مخلص اور ایماندار خلیفہ عطا کرے۔جو اس سرزمین کو پلکوں پہ بٹھائے اور اس کا نام روشن کرے۔ آمین۔

 

 

-------------------------------------------------------

 

 

 

 

 

ہجر

چہرے پر اس کے ایک عجب سی چمک تھی۔ خوشی کے مارے مسکراہٹ اس کے چہرے کا محاسبہ کئے ہوئے تھی۔آنکھیں روشن اور پر امید تھیں۔ اس کی خوشی میںسب جوش وخروش سے شامل تھے۔ گویا یہ سب کی سانجی خوشی ہو۔ نغموں اور تالیوں کی گونج ایک دلکش سماں کا منظر پیش کر رہی تھی۔سب کے لبوں پر بھرپور پر خلوص دعائیںتھی۔ اس کی نئی ذندگی کے آغاز پر ڈھیروں دعائیں اس کی منتظر تھی۔درھقیقت یہ ایک الوداعی تقریب نہیں تھی، بلکہ اس کی حسین یادوں کو مخفوظ کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ان لمحوں کو اس وقت کے لئے سنبھال رکھنا تھا جب وہ ہم سے بہت دور ہوگئی ۔ آخر کارہجر کا وہ وقت بھی آ ہی گیا جب سب کو اپنے اپنے گھر لوٹنا تھا۔ اور جدائی نے اپنی موجودگی کا احساس ہمیں دلانا تھا۔ پس پھر ، ایک ایک کر کے سب دعائوں کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ آنکھیں نم ضرور تھیں پر چہرے پر مسکراہٹیں سجی تھیں۔ یہ کیسی عجیب کیفیت تھی کہ رندھی ہوئی آواز کو چھپانہ تھا اور مسکراتا ہوا چہرہ دکھانا تھا۔یقینا یہ وقت اس کی لئے بھی بہت صبر آزما تھا۔ تبھی تو اس نےچہرہ دوسری جانب کر لیا تھا۔ شاید آشکوں کو چپھانا تھا۔ ان تمام لوگوں کی خوشی کی خاطر ، جو اس کے لئے نیک تمنائیں لئے کھڑے تھے۔ اس اطمینان کے ساتھ کہ وہ جہاں رہے گی ۔انشائ اﷲ خوش و خرم رہے گی۔ کسے خبر ہوتی ہے کہ یوں ایک شخص جو کبھی اجنبی ہوتا ہے ، وہ اتنا عزیز ہو جاتا ہے کہ اس کے جانے سے دل میں ایک خالی پن سا پیدا ہو جاتا ہے۔ آنکھیںنم ہوجاتی ہیں۔ اور اس طرح جدائی ہو جاتی ہے۔ بس باقی رہ جاتی ہیں تو صرف خوبصورت یادیں ۔۔

 

-------------------------------------------------------