Issue# 205

15th Feb 2011

 کمیونٹی کی خبریں

کمیونٹی ویلفیئر اتاشی سید ظہور الحسن گیلانی کے اعزاز میں پاکستان رائٹر کلب ریاض کی الوداعی تقریب

Email: sjmughal@hotmail.com

 رپورٹ: سعید جاوید مغل....................، الریاض

پاکستان رائٹر کلب ریاض ایک سماجی ، فلاحی اور ادبی پلیٹ فارم ہے جس نے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی سید ظہور الحسن گیلانی کے اعزاز میں الوداعی عصرانہ کا انعقاد کیا۔ ظہور الحسن اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد واپس پاکستان جا رہے ہیں۔پروگرام کا آغاز قاری حافظ محمد سعید کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا ،بارگاہ رسالت صلی علیہ وسلم میں نعت کا ہدیہ محمد اصغر چشتی نے پیش کیا۔ بعد ازاں عبدالحمید رضوی نے ملی نغمہ پیش کیا، تقریب کی صدارت کلب ہذا کے سرپرست اعلیٰ سید فیض نجدی نے جبکہ چوھدری رحمت علی نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔

تقریب کے پہلے مقرر ڈاکٹر منصور میمن نے ظہور الحسن کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سینئر بیوروکریٹ ہیں ۔ان کا کام کمیونٹی کی خدمت کرنا تھا، ’آپ صاف گو شخصیت کے مالک ہیں اور ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ کمیونٹی ان کے خدمات کا برملہ اعتراف کرتی اور اس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میں ریاض میں پچھلے دس سال سے مقیم ہوں ، میں نے ایسی کامیاب ٹیم ان دس سالوں میں نہیں دیکھی جو آج سفارتخانہ ریاض میں موجود ہے اور اس کا سہرا ظہور الحسن کو جاتا ہے۔سنہ 2007 میں انکی اپنی فیملی جب اچانک ایک حادثہ کا شکار ہوئی جس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اس وقت ظہور الحسن نے جس طرح میری مدد کی بلکہ وہ میرے ساتھ ہمیشہ ہی ایک بڑے بھائی کی طرح پیش آئے۔ میری دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔شاعرجاوید اختر جاوید نے ظہور الحسن کواخراج تحسین ایک نظم کی شکل میں پیش کیا۔

اک سفارت کار کی باتیں کریں پیار کے اظہار کی باتیں کریں
لالہ و گلزار کی باتیں کریں
جس کے دم سے محفلیں آباد ہوں
کیوں نہ اس کردار کی باتیں کریں
دوسروں کاغم جسے اپنا لگے
بس اسی غم خوار کی باتیں کریں
ختم ہوں یہ نفرتوں کے سلسلے
پیار کے پرچار کی باتیں کریں
زینت انسان جس کو سب کہیں
اور ان اطوار کی باتیں کریں
ظلمتوں کی تیرگی جس چھٹے
صبح کے انوار کی باتیں کریں

او پی ایف کی مجلس عاملہ کے رکن شمشاد علی صدیقی نے کہا جیسا کہ ہم سب ایک مدت سے ریاض میں مقیم ہیں اور آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ جس طرح اپنی تین سا کی ملازمت مدت میں ظہور الحسن نے بھر پور انداز میں کمیونٹی کی خدمت کی ہے اس کی مثال اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی ہے۔ یہاں رہتے ہوئے ہمیں پاسپورٹ کی تجدید کیلئے سفارتخانہ اور ہوائی ٹکٹ کے حصول کیلئے پی آئی اے جا نا ہوتا ہے، بے شمار افسران آئے لیکن ان میں بہت ہی کم ایسے تھے جنہوں نے کمیونٹی کی خدمت کو اپنا اشعار بنایا۔ سفارتخانہ ریاض میں آج تک جتنے بھی کمیونٹی ویلفیئر اتاشی آئے ان میں کمیونٹی کی خدمت میں جو نام سب سے سر فہرست ہے وہ نام ظہور الحسن کا ہے۔ ظہور الحسن نے اپنے عہدہ کا پورا پورا حق ادا کیا۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں سفارتخانہ میں اس وقت ایک بہترین ٹیم موجود ہے۔
عبدالحمید رضوی نے ترنم میں احمد فراز کی غزل پیش کی:
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں


ظہور الحسن کی جگہ لینے والے کپٹن(ر)سید حماد عابدنے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا بچپن اسی شہر ریاض میں گزرا ہے پاکستان انٹرنیشنل اسکول ناصریہ کا میں طالب رہا ہوں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد پاکستان آرمی میں چلا گیا اور 1986میں پاس آوٹ ہوا ۔2004 میں میرا انڈکشن ہو گیا اور میں نے سول سروس میں آکر پولیس کو جائن کرلیا۔بحیثت ایس پی سٹی پشاور میری آخری ذمہ داری تھی۔ اللہ تعالی نے کرم کیا اور میں آج آپ کے درمیان موجود ہوں۔ میں ملک سے باہر بہت سے ملکوں میں گیا ہوں لیکن یہاں کی کمیونٹی جتنی منظم اور متحرک ہے وہ میں نے کسی دوسرے شہر میں نہیں پائی۔ یہاں کی تقریبات کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ مل کر ایک جگہ بیٹھتے ہیں کاش اسی طرح پاکستان میں بھی تمام اختلافات کو بالا تاک رکھتے ہوئے ہم اسی طرح متحد ہوں۔ اور اپنے ملک کیلئے کام کر سکیں۔مجھے چند ہی دن ہوئے ہیں یہاں آئے ہوئے مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں میں بہت ہی حب الوطنی کا جذبہ اور بھائی چارہ ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں جو کچھ کر سکتا ہوں وہ کمیونٹی کیلئے کروں گا۔ ہمارے دفتر، ہمارے گھر وں اور ہمارے دلوں کے دروازے کمیونٹی کیلئے کھلے ہیں اور ہمیشہ ہی کھلے رہیں گے۔

مہمان خصوصی سید ظہور الحسن گیلانی نے خطاب میں کہا کہ میں آپ سب کا مشکور ہوں کہ آ پ میرے لئے یہاں تشریف لائے، میں اس قابل تو نہ تھا جتنی آپ نے مجھے پذیرائی دی اس میں بڑی وجہ آپ لوگوں کے دلوں کی کشادہ دلی تھی، حسن ظرف تھا ورنہ جو کام میں نے کئے وہ میری ڈیوٹی میں شامل تھے۔ اور اگر میں اپنے کام کی بجاوری صحیح نہ کرتا تو آج میں سزاوارے شرم ٹھہرتا۔ یہ اللہ پاک نے مجھے توفیق دی اور میں نے کئے، یہ ایک آرگنائزیشن ہے جس کا میں ٹیم ورکر تھا۔ایسی پذیرائی شاید ٹیم میں نہیں ہوتی یہ تو اللہ پاک کا کرم ہے کہ اس ٹیم کی وجہ سے جو مجھے عزت ملی، اس ٹیم کی وجہ سے جو میں آگے چل سکا اور میں آپ کے تعاون کا بھی شکر گزار ہوں۔ میں یہاں طارق میر کا شکریہ بھی ادا کروں گا ایسے لوگ بھی یہاں موجود ہیں جنہیں ہمیشہ دو قدم آگے ہی بڑھتے دیکھا میں دلی طور پر ان کا بہت ہی قدردان تھا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ لوگوں کے کام آتے تھے۔جو لوگوں کے کام آئے وہ میرے لئے بہت ہی قابل قدر ہوتا ہے۔ میں شکرگزار ہوں ان کا کہ مجھے ان کا دست تعاون حاصل رہا، وقت بوقت ساتھ رہے، جس جس جگہ میں نے ان کو کہا اور وہ گئے۔ میں یہ بھی آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ صرف میت کو لیجانے کیلئے ٹرانسپورٹ ہی نہیں بلکہ جب مرے ہوئے شخص کو اس کی بیوی اور بچے ہاتھ لگانے کیلئے تیار نہیں ہوتے اس سے بھاگتے ہیں کہ یہ جان نکلی ہوئی جان ہے تو ایسی جانوں میں فارملین ڈالتے ہیں۔یہ باتیں تو مجھے نہیں کرنی چاہیں تھیں لیکن میں جا رہا ہوں اور طارق میر یہ خدمت کرتے آ رہے ہیں۔ میں ان کی یہ خدمات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا تھا۔ میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ میں آج یہاں سے سرخرو ہو کر اپنے وطن جا رہا ہوں۔
صدارتی خطبہ میں سید فیض نجدی نے کہا کہ میری دعا ہے کہ سید ظہورالحسن گیلانی ایک نئی ذمہ داری میں ترقی پا کر پھردوبارہ سفارتخانہ پاکستان تشریف لائیں۔ میں سب مہمانوں کا شکر گزار ہوں کہ وہ اس تقریب میں تشریف لائے۔پاکستان رائٹر کلب ریاض کی طرف سے کلب ہذا کے سرپرست اعلیٰ سید فیض نجدی نے سید ظہور الحسن گیلانی کوایک یادگاری شیلڈ پیش کی۔