Welcome to ContactPakistan.com
 

فیض سیمینار شامِ فیض کی پُر وقار تقریب پیرس میں انعقاد

انقلاب کی سر زمین فرانس کے شہر پیرس میں فیض احمد فیض صد سالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں فرانس کے ایک مقامی ریسٹورانٹ میں شریف اکیڈمی جرمنی کے زیرِ اہتمام ایک خوبصورت اور پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں پاکستانی کمیونٹی کی اہم شخصیات نے شمولیت کر کے پروگرام کی رونق کو دوبالا کر دیا ۔فیض احمد فیض کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے فرانس میں مقیم علم وادب کی خدمت میں پیش پیش ،نامور شاعرہ اور نثر نگار محترمہ سمن شاہ نے پروگرام کے انتظامات کے ساتھ ساتھ نظامت کے فرائض بھی سر انجام دئیے ۔ پروگرام کی صدارت شفیق مرادنے کی جبکہ مہمانِ خصوصی فرزانہ فرحت اورمہمان، اعزازی ارم بتول قادری اور عدیل شاکر تھے۔پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔سمن شاہ نے پروگرا م کے آغاز میں پروگرام کی ترتیب پیش کی ۔اس کے بعد شفیق مراد نے علم کی روشنی دنیا میں پھیلانے کے عزم کے اظہار کے طور پر شمع روشن کی ۔جس پر تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا سمن شاہ کی تفصیلات کے بعد محترم میاں امجد صاحب نے فیض کی فکر، ان کی سوچ ، انکے خیالات کو جدت پسند ی اور سوچ کو ایک الگ ڈھب سے بہترین الفاظ کے قالب میں ڈھالا۔ ان کا انداز بیاں بلاشبہ کسی تعریف کا محتاج نہیں ۔ وہ شعلہ بیان مقرر کے طور پر اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔لندن سے تشریف لانے والی شاعری کے حوالے سے ایک معتبرشخصیت ،شریف اکیڈمی کی ڈائریکٹر برائے لنڈن اور پروگرم کی مہمانِ خصوصی محترمہ فرزانہ فرحت صاحبہ نے اپنی خوبصورت اور باوقار شخصیت کی طرح انتہائی با معنی اور درد بھرا آرٹیکل پڑھا جس میں فیض کے اہل خانہ کی وہ تمام تکالیف جو دور اسیری میں جھیلی وہ دلچسپ پیرائے میں یوں بیان کی گئیں کہ ہال میں موجود ہر فرد خود اپنی نگاہوں سے ان مناظر کونہ صرف تصور کی آنکھ سے دیکھنے لگا بلکہ فیض کی بچیوں کا دکھ اور بیوی کا درد محسوس بھی کرنے لگا ۔ فرزانہ فرحت صاحبہ بلاشبہ سحر انگیز شخصیت اور انداز کی مالکہ ہیں جس جذباتی اور موثر انداز میں باریک بینی سے مشاہدہ پیش کیا اس انداز بیاں نے سننے والوں پر ایک سحر سا طاری کر دیا ۔ حاضرین پورے انہماک سے ان کے ساتھ فیض کے پابند سلاسل دور میں خود کو ان کے ہمراہ محسوس کرتے رہے ۔محترم میاں امجد صاحب نے فیض کی فکر، ان کی سوچ ، انکے خیالات کو جدت پسند ی اور سوچ کو ایک الگ ڈھب سے بہترین الفاظ کے قالب میں ڈھالا۔ ان کا انداز بیاں بلاشبہ کسی تعریف کا محتاج نہیں ۔ وہ شعلہ بیان مقرر کے طور پر اپنی منفرد پہچان تو رکھتے ہیں لیکن آج ایک اور نئے روپ میں بھی اپنی شعلہ بیانی کا لوہا منوا گئے ۔روشن ذہین، چمکتی نگاہیں جو اپنی عمر سے بہت آگے دیکھتی ہیں اور خاص طور پر آج کی مہذب دنیا میں بھی ابھی تک پاکستان میں پسی ہوئی عورت کی بے بسی کو جتنا خوبصورت یہ بیان کرتی ہیں ایسا کلام نا پید ہوتا جا رہا ہے ۔ محترمہ ارم بتول جو بہت نو عمری میں ہی ادبی شخصیات کے زیر نگرانی اپنی ادبی علمی تعلیم کے مراحل طے کررہی ہیں ۔ ارم بتول اہل قلم ویب سائٹ کی ایڈیٹر ہیں۔ فیض صاحب کی سوچ خاص طور پر عورت کے بارے میں کیا سوچتے تھے اور کن بلندیوں پر دیکھنے کے متمنی تھے ، اس کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے مناسب اور جامع اندازمیں ارم بتول نے پیش کیااور حاضرین سے خوب داد وصول کی ۔ فیض کی سوچ کو پنپنے سے کوئی جبر کوئی ظلم کوئی دباؤ نہیں روک سکا ۔ آج جب فیض ہم میں نہیں ہیں تو ان کی سوچ کا عکس ان کے یہ دیوانے اپنے اپنے انداز میں پیش کرکے گویا ان کی روح کے سامنے سرخرو ہو رہے ہوں بپیرس میں پاکستان پریس کلب کے صدر اور بے حد فعال کامیاب کاروباری شخصیت کے علاوہ ایک نامور صحافی جن کے حصے میں کئی ایسے اعلیٰ اعزازات آئے ہیں جو شائد ہی کسی اور کے حصے میں آئے ہوں ، ، صاحبزادہ عتیق۔اور عتیق کی ایک بات نے حاضرین محفل کے دل جیت لیے جب آتے ہی بڑی بے خوفی سے یہ بیان کیا کہ جو مقالہ وہ پڑھنے جا رہے ہیں فیض احمد فیض پر وہ ان کی کاوش نہیں اگر یہ مقالہ کسی تعریف کے درجے کو پہنچے تو بلاشبہ یہ تعریف ان کی نہیں بلکہ لکھنے والے کی ہو گی ۔ مدلل ٹھوس اور جاندار شواہدات اور مثالوں سے مزین ضخیم مقالہ حاضرین محفل کو مبہوت کر گیا ۔ حاضرین نے مکمل خاموشی اور پوری دل جمعی سے اس اعلیٰ شخصیت کی شاندار ادبی خدمات کے سفر کو پوری توجہ سے سنا وار اپنی علمی معلومات میں کئی گنا اضافہ کیا۔اس کے بعد شفیق مراد صاحب تشریف لاتے ہیں ۔ شاندار شخصیت دل موہ لینے والا انداز بیاں اور پختہ سوچ کے ساتھ ایک بڑی اور دور رس سوچ جو ان کے الفاظ خود بخود کھول رہے تھے ۔ یورپ میں علمی ادبی کاوشوں کے لیے محدود وسائل میں رہ کر شریف اکیڈمی کا قیام اور اس اکیڈمی کے تحت گمنام لوگوں کو دنیا میں نہ صرف متعارف کرانا بلکہ زباں اور ملک کے نام کو بلند کرنے کی سوچ جو بلاشبہ خال خال نظر آتی ہے ۔ایسی نفسا نفسی کے عالم میں شفیق مراد کی جانب سے اکیڈمی کے معرض وجود میں آنے سے اب تک اس کی ادبی خدمات کے تذکرے نے تارکین وطن کے سر فخر سے بلند کر دیے کہ دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی جوت کوئی لو کوئی کرن ضرور جلتی دکھائی دیتی ہے ۔ شفیق مراد جیسے اعلیٰ سوچ رکھنے والوں کی صورت ۔ یہ ان چند خوش نصیب افراد میں سے ایک ہیں جو اپنی بات کہنے کا ہنرصرف جانتے ہی نہیں بلکہ اس کو ذہنوں پر نقش بھی کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں ۔شفیق مراد نے کینیڈا میں مقیم ادبی سکالرتسلیم الہی زُلفی کا تعارف کروایاجنکی کی پندرہویں اہم کتاب کی تقریبِ رونمائی کرنا مقصود تھی۔اور ان کی زندگی بھر کی ادبی علمی خدمات کا اجمالی خاکہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ’’ فیض احمد فیض کے صد سالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں اس سال متعدد کتابیں منصہ شہود پر آئیں گی تا ہم اس کتاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تسلیم الٰہی زلفی کی گزشتہ پچاس سالہ مجموعی علمی‘ ادبی اور تخلیقی کارکردگی اور اب اِس کتاب کے تناظر میں انہیں حکومتِ پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز ’’ستارہ امتیاز‘‘ کے لیے نامزد کیا گیا۔اس کتاب کی رسمِ اجراء سرکاری سطح پروفاقی مرکز اسلام آبادنیزپاکستان کے چاروں صوبوں میں ہوچکی ہے‘ جس کی صدارت صوبوں کے گورنروں اور وفاقی وزراء نے فرمائی ہے۔ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اس بے مثال کتاب کی پہلی تقریب رونمائی یورپ کے ملک فرانس میں ہو رہی ہے‘‘ ۔ اس کے بعد پیرس میں پاکستانی کمیونٹی کے ہر دل عزیز ماہر کالم نگار ،سیا سی بصیرت کے حامل جوپاکستان پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔میاں امجد صاحب،انہون نے کتاب پر لکھے گئے ، فخر زمان‘ چیر مین اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے پیشِ لفظ کو پڑھ کر سنایا ۔جس میں فخر زمان نے لکھا ہے کہ’’ زُلفی صاحب نے بیروت میں اپنے عرصۂ قیام کے دوران‘ فیضؔ صاحب کی غریب الوطنی‘ تنہائی اور فکری تلاطم کے نہایت ہی اہم چار سالہ دور کی نایاب یاد داشتیں لکھ کر‘ گویا اْن کی زندگی کی کتاب کو مکمل کردیا ہے۔۔کہ اب آئندہ آنے والی نسلیں فیض احمد فیضؔ کے ۷۷ سالہ عرصۂ حیات سے مکمل طور آگاہی حاصل کر سکیں گی‘‘بعد ازاں پاکستانی کمیونٹی کے ممبر یوسف خان کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی ۔جنکی خوش قسمتی کہ انہیں فیض احمد فیض کے قیامِ بیروت کے دوران ان سے ملاقات کانہ صرف شرف حاصل ہوابلکہ قربت بھی حاصل ہوئی۔انہوں نے اُن یادگار لمحوں کا ذکرانتہائی احترام سے کیا۔شفیق مراد نے پیرس کی نامور قلمکار اور پاکستان پریس کلب کی چئرپرسن محترمہ شاہ بانو کوکتاب پر اظہارِ رائے کی دعوت دی۔انہوں نے اپنے خطاب میں کتاب میں شامل عنوانات اور کتاب کی روح کو مختصر انداز میں پیش کیا ۔جس سے سامعین بہت متاثرہوئے ۔ یہ کتاب جسے احترام کے ساتھ کسی اہم دستاویز کی طرح خوبصورت گفٹ پیپر میں ملفوف ربن کی رسمی علامت کے ساتھ رکھا تھا۔ شفیق مرادکو دی گئی۔انہوں نے منتظمہ پروگرام محترمہ سمن شاہ اور مہمانِ خصوصی محترمہ فرزانہ فرحت کے ہمراہ ربن کاٹ کرباقاعدہ رونمائی کی گئی۔تو حال تالیوں سے گونج اُٹھاکتاب تمام حاضرین کو دکھائی گئی تادیر تالیوں کا سلسلہ جاری رہا۔یہ بہت خوبصورت لمحہ تھا فیض کے جانے کے بعد بھی لوگ ان کی یاد کو ان کے پیغام کو ان کے مقصد کو لے کر چل رہے ہیں تو یہ شعر بے ساختہ یاد آجاتاہے ۔ 
ہم نے سوکھی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھو ل اب بھی نہ کھلتے تو قیامت ہوتی 
سمینار کے پہلے حصے کے اختتام سے قبل شفیق مراد سٹیج پر اختتامی خطاب کے لیے تشریف لائے۔انہوں نے سب سے پہلے مہمانوںکاشکریہ ادا کیا اسکے بعد محترمہ سمن شاہ کی علمی ادبی اور کمیونٹی کی خدمات کاذک کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’سمن شاہ29مارچ2009 کواکیڈمی کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لیے بطورِ خاص جرمنی تشریف لائیں ۔اس طرح انکا شمار اکیڈمی کے بانیان ممبرز میں ہوتا ہے ۔انہیں اُسی اجلاس میں فرانس کے لئے ڈائریکٹر نامزد کیا گیا ۔سمن شاہ ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار اور عملی طور پر انتہائی سر گرمِ عمل شخصیت ہیں۔شاعری میں اپنا نام اور پہچان رکھتی ہیں انکا شمار یورپ کی صفِ اوّل کی چاعرات میں ہوتا ہے ۔اکیڈمی میں انہوں نے بطورِِ ڈائریکٹر اپنے فرائض نہ صرف احسن طور پر سرانجام دیئے بلکہ اکیڈمی کی کار کردگی کو بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔اکیڈمی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے فیصلے کے مطابق سمن شاہ کو اکیڈمی کی جانب سے ڈگری آف آنر پیش کی جائے گی‘‘اس کے بعد سمن شاہ کو سٹیج پر مدعو کیا گیا اور انہیں ڈگری آف آنر پیش کی گئی۔یہ لمحہ سامعین کے لیے انتہائی خوش کن تھا اکیڈمی کی جانب سے انہیں اکیڈمی کی گراں قدر سند سے نوازا گیا۔اپنے اختتامی خطاب میں شفیق مراد نے اکیڈمی کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ دو سال کے مختصر عرصہ میں اکیڈمی کے زیرِ اہتمام متعدد کتب کی اشاعت ہو چکی ہے جبکہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام مستحق بچوں کے تعلیمی وظائف بھی مقرر کئے گئے جو سلسلہ جاری ہے۔پاکستان میں کتب کی تقرئبِ رونمائی کروائی گئی۔اکیڈمی کے28ڈائریکٹر ،اکیڈمی کے پلیٹ فارم پر دنیا بھر میں فروغِ علم و ادب کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔شفیق مراد نے تعلیم کی اہمیت ،علم کے فروغ اور پاکستان میں نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ذہانت کی کمی نہیں وسائل کی کمی ہے ۔ہمیں اپنے ملک میں وسائل کی کمی دور کرنے کے لیے اپنا عملی اور موثر کردار ادا کرنا ہے ۔آج ہم نے علم کی شمع روشن کی ہے جو ہمیں اپنے فرائض یاد دلاتی رہے گی۔اس کے ساتھ ہی اکیڈمی کے جانب سے ایک ادبی علمی جریدہ ای میگ کے اجراء کا اعلان کیا۔جسمیں عام مصنفین کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ فرانس میں تخلیق ہونے والے ادب کو ترجیحی بنیادوں پرشائع کیا جائے گا ۔اس میگ کی ایڈیٹر محترمہ سمن شاہ ہونگی۔اور اس کا نام ’’بزمِ سمن ‘‘ ہو گا۔سال بھر کے میگ کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے گا۔اس طرح پرگرام کا پہلا حصہ اختتام پذیر ہوا۔اسکے بعد محفلِ مشاعرہ ہوئی۔سمن شاہ نے نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنے کلام سے محفل کو معطر کیا ۔فرانس سے محترمہ شمیم خان ،عاکف غنی نے کلام پیش کر کے محفل کو رونق بخشی۔جبکی محترمہ روحی بانو نے فیض احمد فیض کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کلامِ فیض پیش کیا۔اس کے بعد عدیل شاکر ،ارم بتول قادری فرزانہ فرحت اور شفیق مراد نے کلام پیش کر کے محفل کی رونق میں اضافہ کیا۔مشاعرے کے بعد محفلِ موسیقی منعقد ہوئی۔محترمہ ستارہ ملک نے کلامِ فیض پیش کیا ۔ اسکے بعد مقامی اہلِ فن نے کلام سامعین کی نذر کیا۔اسطرح خوشبووں کے شہر پیرس میں ایک خوبصورت محفل اپنے اختتام کو پہونچی۔


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice