Welcome to ContactPakistan.com
 

خواتین کے عزائم اور زمانے کے دستور۔

شاہین جاوید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الریاض

انسانی فطرت ہے کہ وہ بہتر سے بہترین کا شودائی ہے.تاریخ گواہ ہے کہ آگے بڑھنا اور بہتر ین کی چاہ انسانی فطرت کی رگ رگ میں شامل ہے اور اس کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے.کچھ لوگوں میں یہ چاہ اس قدر شدت اختیار کر جا تی ہے کہ وہ اپنی منزل کو جا ئز اور نا جائز دونوں ذرائع سے حا صل کر نا اپنی زندگی کا مقصد تصّورکر لیتے ہیں. اور بعض کہ نزدیک کچھ کرنے اور بننے کی چاہ دل کے کسی بند کونے میں پڑی ذنگ آلود بو سیدہ سی خواہش بن کر رہ جاتی ہے. جس کو محض دل کی تسلی کے لیے بھی دل و دماغ پر حاوی نہیں ہونے دیا جاتا۔کیونکہ پھر ایسے لمحات امید کی شکست پر آبیدہ ہو کر روح کو تڑپا دیتے ہیں۔جو زیادہ تکلیف دہ لمحات ہوتے ہیں۔خواہشوں کے حصول میں جہاں تقدیر کا بہت ہاتھ ہوتا ہے ۔وہاں ہمارے اردگرد کا معاشرہ بھی اپنی ذمہ داری خوب نبھاتا ہے۔ خاص کر جب کسی خاتون کے خوابوں اور خواہشوں کا تذکرہ ہو تو وہاں معاشرہ اور اس کے لوگ اپنی ذمہ داری خوب افضل اور بہترین طریقے سے نبھاتے ہیں۔معاشرے کی یہ احساس ذمہ داری ان خواتین کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوتی ہے جو اپنے دل میں کچھ بننے کی چاہ رکھتی ہیں۔جب مرد گھر سے نکلتا ہے تو اسے صرف اور صرف حالات کا سامنا کرنا پرتا ہے۔لیکن جب کوئی خاتون یا لڑکی کچھ امنگیں اور خواہشیں لیے کچھ بننے کی چاہ میں گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اسے حالات کے ساتھ معاشرے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں اہم کردار فریق ثانی یعنی مرد حضرات کا ہوتا ہے۔جو زندگی کے ہر موڑ پر کہیں نہ کہیں عورتوں کی زندگی کو متاثر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہوں۔باپ ہو یا بھائی۔خاوند ہو یا بیٹا یا پھر محلے کی شرفاء کے صاحبزادے یا پھر ادارے میں کام کرنیوالے ملازمین ۔ کچھ خواتین بھی دوسری خواتین کی خواہشات کو کچلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ان افراد کے کردار کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ان کی سوچ اور اعمال کا اندازہ ہم یوں لگا سکتے ہیں کہ جب ایک لڑکی اپنے گھر سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یا پھرکرنے کے لیے نکلتی ہے تو معاشرے کے لوگوں کے لیے دلچسپ موضوع کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔اوپر سے چند مرد خضرات کی مہربانی کے باعث ان خواتین کا شک کے دائرے میں آنالازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ اور نتیجتا گھر کے بزرگ اپنی بیٹی کو تعلیم جیسے انمول تحفہ سے محروم کر دینے میں ہی بھلائی تصور کرتے ہیں۔ جس کا خمیازہ لڑکی کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ جس کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔مگر پھر بھی قصور وار لڑکی ہی تصور کی جاتی ہے۔اور تعلیم اور خواہشوں کی تکمیل سے دوری بے بنیاد سزا کے طور پر اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اور کچھ لوگوں کی مہربانی کے باعث وہ اپنی زندگی کے مقصد کو محدود حدود تک محصور کر کے رکھ دیتی ہے۔گو کہ معاشرہ اور فریق ثانی اس کے مستقبل کی تباہی کا ذمہدار ٹھہرا۔اگرچہ اس تباہی میں کچھ ہاتھ گھر کے افراد کا بھی ہوتا ہے۔وہ اس طرح کے دستور حقیقت تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص یا معاشرہ اس گھر کی عورت پر انگلی اٹھائے تو سب سے پہلے گھر کے افراد پر حقیقت کا ادراک کرنا ان کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔اور اگر خوش مندی اور حقیقت پسندی کے تحت حاتون کے اعمال و کردار کا مطالعہ کیا جائے۔ تو خاتون کے بے قصور ہونے پر انگلی اٹھانے والے معاشرے کا منہ توڑ جواب دینا گھر کے افراد کی اولین ذمہداری بنتی ہے۔ اگر خاتون کو اپنے گھر کے افراد کا بھرپور اعتماد مہیا ہو تو وہ کسی بھی مشکل کا آسانی سے مقابلہ کر سکتی ہے۔وہ کسی بھی معاشرے میں باعزت اور با وقار مقام حاصل کر سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے گھر کے افراد کا ساتھ اور اعتماد شرط اول ہے۔ جس کا واضح اثر ان خواتین پر پڑے گا جو حقیقت میں اونچائیوں کو چھونے کی قابلیت رکھتی ہیں۔
تو بس چھپی زرخیزی میں چار چاند لگانے اور پھلنے پھولنے کے لیے اعتماد کے بیج اور بھروسے کی بارش شرط اول ہے۔ جس کی بدولت خواتین اور لڑکیاں زیادہ حوصلہ مند اور زیادہ مظبوط فکر و سوچ کے ساتھ نمودار ہونگی۔ جو یقیناًامنگوں اور خواہشوں کے زیر اسیر انسانوں کے لیے بہترین حکمت عملی ہوں گی۔بس کچھ اعتماد کے بیج کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے۔

 


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice