Welcome to ContactPakistan.com
 

بزم اُردو قطر کا سالانہ عظیم الشان مشاعرہ

رپورٹ: حبیب حیدر آبادی ۔ سکرٹری نشر و اشاعت بزمِ اردو قطر

 

قطر کی قدیم ترین ادبی تنظیم ’’بزم اُردو قطر ‘‘(قائم شدہ اگست ۱۹۵۹ء)کی روایات میں ماہانہ طرحی مشاعروں کے علاوہ سالانہ مشاعرہ بھی شامل ہے۔امسال بزم کا سالانہ مشاعرہ بزم کے گیارہویں عالمی ادبی سیمینار ’’بہادر شاہ ظفر‘‘کے اگلے روز ’’شیزان ہوٹل‘‘دوحہ میں منعقد ہوا۔حاضرین میں کم و بیش چار سو خواتین و حضرات موجود تھے۔ممبئی سے آئے ہوئے بزرگ شاعر ابراہیم اشک کے زیر صدارت منعقدہ اس مشاعرے میں دہلی سے ڈاکٹر کوثر مظہری‘لاہور سے سعود  عثمانی اورڈاکٹر صغریٰ صدف ‘امریکہ سے آذر شاہین اور ابو ظہبی سے ظہورالاسلام جاوید ، مہمانِ خصوصی (رکنِ سرپرست کمیٹی )رانا محمد ایوب اور ان کے ہمراہ بزم کی نمائندگی کرتے ہوئے صدرِبزم امجدعلی سرور مسند نشینوں میں شامل تھے۔
اسٹیج پر ان سب کا استقبال بزم کے چیئر مین محمد ممتاز راشد اور نائب سیکرٹری اشفاق قلق نے کیا۔بزم کے جنرل سیکرٹری افتخار راغب  نے استقبالیہ کلمات کے ساتھ ابتدائی نظامت کی جبکہ مشاعرے کے دور کی نظامت بزم کے سرپرست اور سینئرشاعرمحمد رفیق شاد اکولوی نے کی۔
مشاعرے کی ابتداء تلاوتِ کلام پاک سے ہوئی۔یہ سعادت حافظ فخرالدین رازی کے حصے میں آئی۔اس باوقار مشاعرے میں پہلے اٹھارہ شعرائے کرام نے کلام سنایا جن میں بزم اردو قطر کے چودہ رکن شعراء بھی تھے جب کہ فرید ندوی کچھ خانگی مصروفیات کے سبب شریک نہیں ہو سکے۔ قطر کے شعراء کو زیادہ سے زیادہ نواشعار سنانے تک محدود کیا گیا تھا۔تاکہ مہمان شعراء کو زیادہ سے زیادہ سنا جاسکے۔حاضرین نے تمام میزبان شعراء کو بھی اتنی داد و تحسین سے نوازا کہ ان پربھی عالمی سطح کے مہمان شاعر ہونے کا گمان ہورہا تھا۔ان شعرائے کرام میں محمد ممتاز راشد ، امجدعلی سرور ، شاد اکولوی، یوسف کمال ، شفیق اختر ، عزیز نبیل ، افتخار راغب ، ندیم ماہر ، سید فہیم الدین، اشفاق قلق ، اعجاز حیدر ، منصور اعظمی، جمشید  انصاری، سید زوار حسین زائر ، مظفر نایاب ، افروز  عالم، حبیب حیدر آبادی اور روئیس ممتاز ۔تمام شعراء میں سے صرف تین شعراء نے ترنم سے کلام سنایا۔قطر کی نمائندگی کرنے والے اِن شعرائے کرام کے بعد مہمان شعراء کے کلام سنانے کا مرحلہ شروع ہوا۔پہلے امریکہ سے آئے ہوئے شاعر آذر شاہین نے اپنی تین چار غزلیں سنائیں اور کافی پذیرائی حاصل کی ۔ان کے بعد ابو ظہبی سے آئے ہوئے نامور شاعرظہور الاسلام جاوید نے متفرق کلام سنایااور بہت دادپائی۔پھر دہلی سے تشریف لائے ہوئے نامور شاعرڈاکٹر کوثر مظہری نے اپنی چار پانچ غزلیں سنائیں۔حاضرین نے ان کی ان معیاری غزلوں کو بے حد سراہا۔لاہور سے آمدہ شاعرہ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بھی تین چار مکمل غزلیں اور اپنی بعض غزلوں سے متفرق اشعار پیش کیے اور ایک ایک شعر پر بہت داد پائی۔لاہور ہی سے آئے ہوئے ایک اور نامور شاعر سعود عثمانی کو دعوتِ کلام دی گئی۔وہ اپنی چار غزلیں سناکر جانے لگے تو حاضرین کے پُر زور اصرار پر انہیں پھر ڈائس پرآنا پڑااور پھر انہوں نے مزید دو غزلیں سنائیں۔ان کے ایک ایک شعر پر حاضرین نے دل کھول کر داد دی۔ان کے بعد صدر مشاعرہ ابراہیم اشک نے متفرق کلام سنایاجو خوب سراہا گیا۔انہوں نے ایک پُر تاثیر المیہ نظم ’’کچے گھرکی یادیں‘‘بھی سنائی۔مہمان شعراء نے اپنے اپنے تمہیدی جملوں میں بزم اردو قطر کے سالانہ مشاعرے کو بہترین الفاظ میں سراہا۔آذرشاہین نے کہا کہ یہاں اتنا اچھا ادبی ماحو ل دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ دوحہ میں ہی آبسوں۔کوثر مظہری نے دوحہ کے سامعین کے ذوقِ سخن کو سراہتے ہوئے انہیں بہترین سماعتیں رکھنے والے افراد قرار دیا۔سعود عثمانی نے کہا کہ کوئی پانچ سال قبل ایک عالمی مشاعرے میں قطر آیا تھا اور بھی کئی ملکوں میں مشاعرے پڑھے ہیں مگر آج کے مشاعرے کا آہنگ اتنا بلند تھا کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا یعنی شاعری بھی معیاری اور سماعتیں بھی لا جواب۔ حاضرین نے کسی اچھے شعر کوہوا میں تحلیل نہیں ہونے دیا۔صدر مشاعرہ ابراہیم اشک نے کہا کہ یہ بے حد کامیاب مشاعرہ تھا۔خصوصاً قطر کے نمائندہ شعراء نے تو بے حد متاثر کیا۔اور مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کئی نامور شاعر کے بطور اُبھریں گے۔۔مہمانِ خصوصی رانا محمد ایوب نے آج کے معیاری مشاعرے کو اپنی زندگی کا یادگار مشاعرہ قرار دیا۔اور بزم کے سبھی ساتھیوں کو دلی مبارک باد پیش کی۔اس سالانہ مشاعرہ کے نمایاں شرکاء میں بزم کے سرپرستان میں سے سید عبدالحئی، سید محمد صبیح بخاری ، شکیب ایاز، محمد بلال خان، فیصل حنیف، شمس الحق آزاد ،اراکین میں افسر عاصمی، محمد غفران، فیروز خان ، شمس الدین رحیمی، ریڈیو قطر اردو سروس کے اناؤنسر میں سے بانو سلیمان اور عبید طاہر، حلقہ ادبِ اسلامی کے صدر ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی، انجمن محبانِ اردو ہند کے صدر خالد داد خان اور ریاض منصوری، انڈین ایسوسی ایشن فار بہار جھارکھنڈ کے مرزا حامد علی اور محمد فاروق احمد اوردیگر تنظیموں سے عدیل اکبر، ملک سرفراز خان، نزاکت علی خان، سردار محمد خان، رضوان احمد،، اشفاق دیشمکھ، جلیل احمد نظامی، عتیق انظر ، محسن حبیب ، محمد یوسف یوسف ، عبدالقدیر شاکر ، مولانا فیاض احمد فلاحی، حافط محمد طاہر، محمد ربانی، جاوید اختر، رشید اکبر، طاہر جمیل، اشرف صدیقی، لیاقت ملک اور چودھری محمد اشرف شامل تھے۔

بزمِ اردو قطر کے سالانہ مشاعرہ (
۱۸ /مارچ ۲۰۱۱ء ؁ ) کے منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں:

ابراہیم اشک (ممبئی)
اک عمر گزر جانے پہ محسوس ہوا ہے
یہ زندگی بے کار تھی بے کار سنبھالی
سعو د عثمانی (لاہور)
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دل پہ سِل رکھنا
ڈاکٹر صغریٰ صدف (لاہور)
ہجر کی دہائی دے ہر ملن جدائی دے
روبرو کھڑا ہے تو چاند کیا دکھائی دے
ڈاکٹر کوثر مظہری ( نئی دلّی)
کون سی دنیا میں ہوں کس کی نگہبانی میں ہوں
زندگی ہے سخت مشکل پھر بھی آسانی میں ہوں
ظہورالاسلام جاوید (ابو ظہبی)
فسانے کو حقیقت میں بدلتے تم نے دیکھا ہے
بدلتے ہم نے دیکھا ہے حقیقت کو فسانے میں
آذر شاہین ( امریکہ)
بچا ہے شہر میں کوئی جو رونے والا ہے
کہ سانحہ ابھی اک اور ہونے والا ہے
محمد ممتاز راشد
کمالِ حسنِ تخیل مری سرشت میں تھا
ترے خیال کے آتے ہی میں بہشت میں تھا
امجد علی سرور
غزل نغمہ دھنک مہتاب خوشبو
یہ تشبیہات ہیں سب آپ ہی کی
شاد اکولوی
رکھّی ہے تونے میرے لیے قبر کی زمیں
تیرے طفیل میں بھی زمیندار ہو گیا
یوسف  کمال
ظرف انساں کا قد بڑھاتا ہے
قد سے انساں بڑا نہیں ہوتا
محمد شفیق اختر
تکبر سے جو اکڑے گی وہ گردن ٹوٹ جائے گی
سزا دینے میں قدرت کے ذرا تاخیر ہوتی ہے
عزیز نبیل
عادتاً سلجھا رہا تھا گتھیاں کل رات میں
دل پریشاں تھا بہت اور مسئلہ کوئی نہ تھا
افتخار راغب
پردیس میں رہ کر کوئی کیا پاؤں جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
ندیم ماہر
دھوپ کا بھی عجب تماشا ہے
اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں
سید فہیم الدین
ہنر کو لمحۂ ادراک سے نکلنا ہے
عذابِ کوزہ گری چاک سے نکلنا ہے
اشفاق قلق
کسی کی شخصیت مجروح کردی
زمانے بھر میں شہرت ہو رہی ہے
اعجاز حیدر
اب اس سے آگے تو کھاتا ہے خوف صحرا بھی
اب اس سے آگے مرا گھر دکھائی دیتا ہے
منصور اعظمی
وہ منائیں گے کیسے خوشی عید کی
اتنا سوچا ہی تھا آنکھ نم ہوگئی
سید زوار حسین زائر
اب تو خوشبو کی ضرورت نہیں پڑتی زائر
یاد کرتے ہیں اسے اور مہک جاتے ہیں
جمشید  انصاری
میں کوئی راہ کا پتھر نہیں ہوں پربت ہوں
ہٹا نہ پاؤ گے مجھ کو تم اپنی ٹھوکر سے
مظفر نایاب
اتنا نہ ستاؤ کہ عدو تم کو بنا لوں
قرطاس و قلم پھینک دوں ہتھیار اٹھا لوں
افروز  عالم
پر فشاں ہو کے جو پرواز کیا ہے تم نے
اک نئے دور کا آغاز کیا ہے تم نے
حبیب  حیدر آبادی
مشورہ ہے وہ تجھے دیکھ لے اک بار ضرور
جس نے دیکھی نہ ہو ہوتی ہے قیامت کیسی
روئیس ممتاز
جھریاں چہرے پہ ہیں یا ہے کوئی نقشِ سفر
زندگی جیسے کہ رکھ دی ہو مرے پیشِ نظر
معیاری شاعری کے عمدہ تناسب کے علاوہ شاعروں کی تعداد کے اعتبار سے بھی یہ قطر کا ایک بہت بڑا مشاعرہ تھا۔ حاضرین کی طرف سے ملنے والی لگاتار داد و تحسین بھی مثالی رہی۔


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice