Welcome to ContactPakistan.com
 

پاکستان کلچر گروپ الریاض کے زیر اہتمام یوم جمہوریہ پاکستان کے موقع پر محفل مشاعرہ کا اہتمام

رپورٹ: جاوید اختر جاوید.............. الریاض

مشاعرہ ایک اہم تہذیبی ادارہ ہے ہماری تنقید کی تاریخ مرتب کرتے وقت بھی مشاعروں کا ذکرناگزیر ہے، اس ادارے کی تاریخ کشش اور اہمیت سے خالی نہیں ہوسکتی اسے ارتقائی عمل سمجھئے یا ترقی معکوس، آجکل مشاعروں کی نوعیت ان رحجانات و میلانات ان کی شعر فہمی کی صلاحیت اور تنقیدی حیثیت مختلف ہو گئی ہے۔مشاعرے وسیلہ علم آگہی ہیں اور ان کا انعقاد فروغ ادب کیلئے بہت ضروری ہے تاکہ اچھی، سنجیدہ پرُوقار شاعری اور تجزیاتی کلام عام سامعین تک پہنچتا رہے، شاعری اور مشاعروں کی اسی ادبی تاریخ کے حوالے سے گزشتہ دنوں ریاخ میں پاکستان کلچر گروپ کے زیر اہتمام یوم جمہوریہ پاکستان کے موقع پر ایک محفل مشاعرہ منعقد ہوئی اس محفل مشاعرہ میں پاکستان سے خصوصی طور پر آنے والے مہمان شعرائے کرام میں سلمان گیلانی، سلیم کوثر، افتخار عارف اور سحر انصاری شامل تھے۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی مہمان خصوصی افتخار عارف اور اعزازی مہمانوں میں سلیم کوثر اور سلمان گیلانی شامل تھے۔ مشاعرے کی ابتدا تلاوت قرآن سے ہوئی جبکہ مظامت کے فرائض پاکستان کلچر گروپ کے روحِ رواں شمشاد علی صدیقی نے بخوبی سر انجام دئیے ۔مشاعرے سے قبل پنچ ستارہ ہوٹل میں شرکاء کے اعزاز میں پرُتکلف عشائیہ دیا گیا تھا۔ اس موقع پر سامعین نے زبانی داد کو ناکافی سمجھتے ہوئے تالیاں بجا کر شعراء کرام کو بھر پور داددی تاکہ سند رہے۔پاکستان کلچر گروپ کے سیکریٹری جنرل شمیم جاوید نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے پاکستان کلچر گروپ کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور اپنے گروپ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی، خطبہ استقبالیہ میں سفارتخانہ پاکستان کے ناظم الامور ایاز محمد خان نے کہا کہ اردو ایک تہذیب کا نام ہے اور آج کی محفل ہماری تہذیب و ثقافت کا بہترین نمونہ ہے انہوں نے کہا کہ پروفیسر سحر انصاری جامعہ کراچی میں میرے استاد رہے ہیں وہ صرف اردو پڑھاتے نہیں اردو بتاتے بھی ہیں۔ وہ ایک شفیق استاد اورممبع علم وکمال ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں ان کا اور دیگر شعراء کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ مقامی شعراء نے اپنے کلام بلاغت نظام سے محفل کا آغاز کیا۔ اقبال اعجاز بیگ نے اس موقع پر 23 مارچ کے حوالے سے ایک خوبصورت نظم سنائی اور داد پائی، شوکت جمال نے اپنے شگفتہ کلام سے انتخاب پیش کیا جبکہ کاوش عباسی نے ایک فکری آزاد نظم پیش کی، جاوید اختر جاوید نے محفل مشاعرہ کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔۔۔
سخن گری کے نئے سلسلے تلاش کرو
نئے خیال نئے زاویے تلاش کرو
اگاؤ فصل سخن اب نئی زمینوں پر
نئی ردیف نئے قافئے تلاش کرو
جدہ سے آئے ہوئے مہمان شاعر نعیم بازید پوری یوں گویا ہوئے۔۔۔
تم جسے اتنا قریب رگ جاں لکھتے ہو
نام لکھتے ہو نہ اس کا نشاں لکھتے ہو
جس کی خاطر یہاں ہربات لکھی ہے تم نے
اس کے بارے میں کوئی بات کہاں لکھتے ہو
سلمان گیلانی حضرت عبیداللہ سندھی اور مولانا احمد علی لاہوری کے سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ بنیادی طور پر نعت گو اور نعت خواں ہیں لیکن اردو پنجابی کے باکمال شاعر ہیں۔ وہ جب اپنے فنکارانہ ترنم میں غزل سرا ہوتے ہیں تو لفظ بولنے لگتے ہیں وہ یوں ہمکلام ہوئے اور انہوں نے بے ساختہ داد سمیٹی۔۔۔
ہے تعریف و توصیف جتنی بھی ممکن
وہ رب اور محبوب رب کیلئے ہے
میں رہتا ہوں لاہور میں پر مرا دل
دھڑکتا سعودی عرب کیلئے ہے
سلیم کوثر کی غزل میں تنہائی کی شدت، خیال کا کرب اور رات کے درد کا استعارہ نئی معنی آفرینی اور منفرد لہجے میں نظر آتا ہے، وہ بنیادی طور پت جمالیاتی شاعر ہے جس کی غزل میںیاس امید کا سنجیدہ اور سچا مرقع نظر آتا ہے سلیم سامعین کی بھر پور تالیوں کی گونج میں یوں غزل سرا ہوا۔۔۔
یوں تو کسی سے کچھ بھی چھپایا نہیں گیا
لیکن کس کو کچھ بھی بتایا نہیں گیا
تم لوگ روشنی کے ارادے سے آئے تھے
تم سے تو ایک دیا بھی جلایا نہیں گیا
اور پھر،،،
بجھنے لگ جائیں تو پھر شمعیں جلا دی جائیں
میری آنکھیں مرے دشمن کو لگا دی جائیں
افتخار عارف جدید ذہن کے مالک ہیں انہوں نے اپنی غزل کو جدید ذہن کے فکر اور احساس سے مالا مال کیا ہے،افتخار عارف اردو شاعری میں نیا لب و لہجہ، نیا طرز احساس اور نئی قوت و توانائی سے شعر کہنے والا شاعر ہے انہوں نے اپنا منتخب کلام پیش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر تیرے لوگ بھی اب تیرے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جوتیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں
اور پھر،،،
گڑیوں سے کھیلتی ہو ئی بچی کی آنکھ میں
آنسو بھی آگیا تو سمندر لگا مجھے
پروفیسر سحر انصاری کی غزل آئینہ زندگی بھی اور آئینہ جمال بھی وہ پرانی باتیں نئے اندزا میں اور نئی باتیں پرانے انداز میں کہنے کا ہنر جانتے ہیں ان کی شاعری میں فکر کی نئی جہت، نیا اسلوب اور رعنائی خیال نظر آتی ہے وہ اپنے عہد کے فکری رویوں کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ نظم بند کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کلام پیش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
کتنے دشوار ہیں معیار زمانے کیلئے
آگ ہی لائی گئی آگ بجھانے کیلئے
ہم تو اک حرف محبت سے بھی مر سکتے ہیں
تیر کیوں ڈھونڈ کے لائے ہو نشانے کیلئے
اور،،،
فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی باب رعایت میں نہیں آیا
اڑا کے لائی ہے شاید خیال کی خوشبو
تمہاری سمت ضرورت سے میں نہیں آیا
آخر میں کلچر گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر ریاض خواجہ نے شرکاء محفل اور شعراء کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ تشریف لائے، رونق افروز ہوئے اور محفل کے حسن کو دوبالا کیا، یوں رات گئے یہ محفل مشاعرہ اختتام پذیر ہوئی۔حرف اختتام سلمان گیلانی نے دعائیہ اشعار سے کیا اور ملکی سالمیت کیلئے اجتماعی دعا کروائی۔


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice