Welcome to ContactPakistan.com
 

بہت ہی یاد کرتا ہوں تری بنیاد کا موسم
تبسم محسن علوی

پھر آپ نے کیا سوچا؟؟
عالیہ نے سامنے بیٹھے اخبار پڑھتے ہوئے اپنے شوہر منصور سے پوچھا۔ منصور نے ایک اچٹتی سی نظر بیوی پر ڈالی اور دوبارہ اخبار میں محو ہوگئے۔
بھئی خدا کے لئے اس اخبار کا پیچھا چھوڑدیجئے۔۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں!!!
گھر میں علاوہ اخبار کے پڑھنے کے کوئی اور کام بھی ہے آپ کو ؟؟۔۔!!!!
ٰٓایک تو تمہاری سوچیں نہ صرف تمہیں پریشان کرتی ہیں بلکہ ہمارا جینا بھی دوبھر کردیتی ہیں۔آخر تمھیں یہاں لندن جیسے پر آسائش ماحول میں کیا پریشانیاں ہیں۔تم خود ذرا عقل کا دامن تھام کر سوچو کہ لندن جیسے خوبصورت ترین ماحول میں آرام و آسائش سے بھر پور زندگی اور پھر اتنے اچھے
کا روبار کو چھوڑ کر کون پاکستان کے جھمیلوں میں جانا چاہے گا۔ یہ ایک احمقانہ فیصلہ ہوگا کہ ہم واپس پاکستان چلے جائیں۔ آخر تم کو یہاں کس چیز کی کمی نظر آنے لگی ہے کس بات نے تمہیں واپس جانے پر بے چین کر دیا ہے؟؟؟
منصور !!! کمی تو واقعی مجھے کسی چیز کی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ مگر میں سوچتی ہوں کہ ہم نے زندگی کو جس مقام سے شروع کیا تھا اور آج جس مقام پر ہیں۔ یہ سب تو اللہ کی بڑی رحمت اور بڑا فضل و کرم ہے۔ ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔!!!!
مگر منصور احمد!! میں سوچتی ہوں کہ اب ہماری اولاد جوان ہوگئی ہے۔ یہاں کے ماحول نے ہمارے اور ہمارے بچوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا ہے اور جیسے جیسے وہ جوان ہوتے جارہے ہیں یہ فاصلہ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ مجھے اب شدت سے احساس ہو نے لگا ہے جیسے میری اولاد کی سوچوں کے زاویے ہم سے یکسر مختلف ہوتے جا رہے ہیں؟۔۔۔۔۔
یہ تم نے کیسے سوچ لیا مجھے تو ذرا بھی احساس نہیں ہوا۔ ہم نے تو ہمیشہ اپنے بچوں کو یہاں کے آزادانہ ماحول سے دور رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ تم جذباتی ہو رہی ہو۔ اور کچھ نہیں منصور نے پھر عالیہ کو سمجھایا ۔ نہیں منصور جس ماحول سے ہم نے دور رکھنے کوششیں کیں تھیں اب اس کی پرچھائیں ہمارے گھر پر بھی پڑنے لگی ہے۔ میں تم سے زیادہ اپنے بچوں کے قریب رہتی ہوں تمہیں اپنے کاروبار سے کب فرصت ہوتی ہے جو بچوں کے جذبات اور خیالات کو محسوس کرسکو۔
اب تو مجھے یہ ڈر اور خوف رہنے لگا ہے کہ ہمارے رسم و روج ہماری روایت ہمارا خا ندانی وقار بلکہ سب باتوں سے بڑھ کر ہم اور ہمارے مذہب اسلام کے درمیان یہاں کا مادہ پرست ماحول رکاوٹ نہ بن کے کھڑا ہوجائے۔۔۔ منصور تم ان کے ساتھ وقت گزارو تو احساس ہونے لگے گا کہ ہمارے بچوں کی سانسوں میں رشتوں کی وہ مہک آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے جو ہم اپنی سانسوں میں بسا کر لائے تھے۔ یہ رشتوں کی مہک تو اتنے فاصلے کے باوجود بھی ہمارا اور ہمارے اپنے وطن میں بسنے والے عزیزوں کے درمیان کے فاصلوں کو کم کئے ہوئے تھی۔
منصور میں سوچتی ہوں کہ اگر خدانخوستہ ہم لوگوں کو کچھ ہوگیا تو ہماری اولاد ہمیں ضرور تابوت میں بند کرکے ہمارے وطن روانہ کردے گی۔ مگر وہ خود کبھی یہاں سے جانا نہ چاہے گی۔
عالیہ تم کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔ تمہیں اپنی اولاد پر اتنا بھروسہ نہیں رہا ہے یا پھر ان کی محبت پر تم شک کرنے لگی ہو ۔ مجھے تو اپنے دونوں بچوں پر بڑا فخر ہے کہ وہ یہاں رہتے ہوئے بھی ہمیشہ اپنے آپ کو پاکستانی مسلم بتاتے ہیں ۔ جہاں انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے مراحل میں کامیابی و کا مرانی حاصل کی ہے
وہاں ہمیشہ ہمارا احترام کرتے ہیں ہمار ا ادب کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے تمام رشتے داروں سے بھی محبت کا بھرم بھی قائم رکھا ہے دیکھا تھا پنکی نے کتنا پیارا پیارا خط اماں جان کو لکھا تھا۔ تم نے بھی تو وہ خط مجھ کو بڑی خوشی سے دکھایا تھا نعمان اور پنکی دونوں ہی ہر سال عید
بقر عید سالگرہ وغیرہ پر فرداً فرداً سب رشتے داروں کو کارڈ بھی بھیجتے ہیں ۔
عالیہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا بس رہنے دیجئے !!! کیا مجھے نہیں معلوم یہ سب آپ کے اور میرے کہنے سے ہوتا ہے۔ سچ اگر میں ایک بات آپ سے کہوں تو آپ برا نہیں مانیں گے۔
نہیں نہیں کہو!! بالکل کہو!! مجھے تو لگتا ہے کہ آپ خود ہی کتنا بدل گئے ہیں پہلے تو ہمیشہ یہاں آنے کے بعد کہتے تھے کہ جیسے ہی سارا قرض ادا ہوجائے گا اور ہم پاکستان میں ایک خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے تو لندن کو جلد ہی خیر باد کہہ دیں گے مگر اب جیسے جیسے آپ کے قلب وذہن پر پونڈز اور ڈالرز کی خوشبو سوار ہوگئی ہے وطن کی مٹی کی خوشبو اپنے پیاروں کی محبت کی مہک آہستہ آہستہ زائل ہوتی جارہی ہے۔
منصور نے نظریں چراتے ہوئے کہا!
جی نہیں جنابہ ایسی بات نہیں ہے۔ !!!!!!!
میں تو آج بھی جب آنکھیں بند کرتا ہوں تو اماں جی کا پیار بھرا چہرہ نظروں میں گھومنے لگتا ہے۔ وہی اپنا گھر وہی صحن میں چٹکی ہوئی چارسو چاندنی وہی ستاروں بھرا جھلمل جھلمل کرتا آسمان، چنبیلی ،مو تیا ،رات کی رانی سے مہکتا ہوا آنگن، بہنوں کے رنگین آنچل لئے پیارے پیارے چہرے بھائیوں کے دمکتے چہرے ان کی محبتیں الفتیں بھلا کوئی بھولنے کی چیز ہے۔ ارے وہ خوشیوں سے بھری محفلیں وہ ہنسی مذاق وہ سب کے ساتھ مل کر لگائے گئے قہقہے ہنسی کی جلترنگ یہ سب یادیں تو میرے لئے سرمایہ حیات ہیں۔ مگر ڈیر!!! تم یاد رکھو میری اولاد کبھی بھی ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتی ہے۔وہ ہم سے زیادہ پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے۔ دیکھنا
وہ ہم سے زیادہ ہمارے بزرگوں کا احترام کریں گے ان سے محبت کریں گے اور رشتوں کا بھرم رکھیں گے۔
اف آپ کو سمجھا نا بھی بڑا مشکل ہے۔ اماں بی صحیح کہتی تھیں کہ اگر منصور احمد نے وکالت پڑھی ہوتی تو پاکستان کا سب سے کا میاب وکیل ہوتا۔۔۔۔۔۔!!!!
آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اور آپ بھی تو وہیں پیدا ہوئے جوان ہوئے، اپنے وطن اپنے وطن کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کی بیس پچیس بہاریں گزار کر وہاں کی محبت و الفت سمیٹ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں کے روپہلے دن سنہری سنہری شامیں معطر فضا ئیں آج بھی ہمارے دل کے نہاں خانوں میں بسی ہوئی ہیں۔ جب کبھی دل گھبراتا ہے تو آنکھیں بند کیں اور ان محبت بھرے دنوں کے مناظر آنکھوں میں سجالئے اور مسکرا لئے، مگر ہمارے بچے جنہوں نے نہ کبھی مٹی کی خوشبو کو سونگھا نہ رشتے داروں سے ملے وہ معصوم مٹی کی محبت ، وطن کی الفت اور رشتوں کی مہک کو کس طرح نبھا سکیں گے۔ وہ بھلا کیسے ان رشتہ داروں سے محبت کا بھرم قائم رکھ سکیں گے جن کی صورتوں کو صرف تصویروں میں دیکھا ہو۔
منصوراحمد کل جب ہم ختم ہوجائیں گے تو سمجھو یہ رشتوں کی مہک بھی ہمارے ساتھ ہمارے خاندان سے ختم ہو جائے گی۔تمام بندھنوں سے آزاد ہمارے بچے کبھی بھی اپنے دادا، دادی، نانا، نانی، چچا ماموں خالہ پھوپھی وغیرہ سے ملنے نہیں جائینگے وہ کبھی بھی پاکستان جانے کا نہیں سوچیں گے۔
چلو اگر تمھاری یہی خواہش ہے تو ہم اپنے بچوں کو پاکستان لے جاکر تمام رشتے داروں سے ملوا لاتے ہیں اس طرح کم از کم ان کو پہچان تو رہے گی ۔۔۔۔ منصور نے عالیہ کی طرف دیکھتے ہوئے تجویز پیش کی ۔
نہیں منصور اب جائیں گے تو اپنے وطن میں ہی رہیں گے۔ میں نہیں چاہتی کہ ہمارے ختم ہونے کے بعد ہمارے بچے تنہا اپنوں سے دور رشتے ناطوں سے کٹ کر بکھرے بکھرے رہیں۔ ابھی تو ان پر ہمارا سایہ ہے مگر جب وہ تنہا ہوں گے تو ان کو غم و خوشی کے موسموں میں رشتے داروں عزیزوں اور محبت کرنے والوں کی ضرورت پڑے گی ان کو خون کی رشتوں جیسے بے غرض ساتھی کہاں مل پائیں گے۔
وہ محبت کو خلوص کو ترسنے لگیں گے۔
ماں باپ، بہن بھائی، ماموں چچا، خالہ پھوپھی دادا دادی جیسے مضبوط اور پاکیزہ رشتے جن کا قرآن حکیم میں ذکر ہے کہ یہ تمہارے حقیقی اور خون کے رشتے ہیں ان کا تم پرحق ہے جو ہر خوشی پر ہمارے ساتھ مل کر مسکراتے ہیں۔ ہر غم و دکھ پر جن کی آنکھیں ہماری آنکھوں کے ساتھ بھیگتی ہیں۔ جن کے لبوں سے نکلے ہوئے تسلی و تشفی کے الفاظ ہمارے بڑے سے بڑے زخم کا مرہم بن جاتے ہیں۔
دیکھو نا یہاں لندن میں ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر اس کے باوجود مجھے ہمیشہ ادھورے پن کا احساس تڑپاتا رہتا ہے اکیلے اور تنہائی کا حساس ان مادی چیزوں سے بھلا کیا دور کیا جاسکتا ہے۔ تمہارے دولت کمانے کا شوق بھی پورا ہو چکا ہے۔ بچے بھی پڑھ لکھ کر جوان ہو چکے ہیں، دیکھو اتنے برس اس شہر میں گزارنے کے باوجود کالے بالوں سے سفید بالوں کا طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی آج بھی یہاں رہنے والے ہمیں پردیسی ہی پکارتے ہیں۔ہماری پہچان بھلا کب مٹ سکتی ہے۔ منصور احمد!!! یاد رکھو کہ ہم نے اگر ابھی اپنے سامنے بچوں کو پاکستان میں ایڈ جسٹ نہیں کیا تو وہ خود کبھی بھی وہاں جاکر رہنا پسند نہیں کریں گے۔ ہمیں پاکستان جانے کا فیصلہ جلد سے جلد کر لینا چاہیے ہے۔
بھئی مجھے تو لگتا ہے کہ تم پاگل اور جنونی ہوتی جا رہی ہو۔ یہاں سے جانے کا ایسا بھوت سوار کر لیا ہے۔ کہ بچوں کی اصلاح و تربیت ، رشتے ناطوں کا احترام وطن کی محبت وغیرہ تو صرف ایک بہانہ ہے۔ چھوڑو اس قصے کو ان باتوں میں کوئی وزن نہیں۔ مجھے اپنی اولاد پر اپنے سے زیادہ بھروسہ ہے۔وہ ہماری طرح رشتوں کی مہک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔
ٹرن ٹرن!!!!!،،،،،،ٹرن،،،،،،۔۔۔۔۔۔!!! فون کی گھنٹی کی وجہ سے عالیہ نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا ۔ وہ ٹیلی فون اٹھانے کمرے کی طرف بڑھی۔ تو پنکی کی آواز نے دونوں کو بری طرح چونکا دیا۔
DAD !!! DAD YOUR CALL FROM YOUR COUNTRY, PERHAPS YOUR OLD FATHER WANTS YOU!!!
( ڈیڈ !! ڈیڈ آپ کے ملک سے آپ کا فون ہے شائد آپ کا بو ڑھا باپ آپ سے بات کرنا چاہ رہا ہے)
اس ایک جملے نے منصور احمد کی کل کائنات کو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔۔!!!!!۔۔۔۔۔!!!!
بیٹی بیٹی وہ تمہارے دادا۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
اس سے آگے کے الفاظ ان کے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔ انھوں نے شرمندگی سے عالیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔۔
واقعی ہمیں جلدی پاکستان جانے کا فیصلہ کر لینا چاہیے ہے۔۔۔۔۔!!!!!

مرے شہر پریشاں میں تری بے چاند راتوں میں ۔ بہت ہی یاد کرتا ہوں تری بنیاد کا موسم

 


Learn CPR

Register in our Virtual Blood Bank (Only KSA)

Click to send your Classified ads

KSA Newsletter Archives - Read all about our community in KSA
Be United - Join the Community
©Copyright notice